الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۶۹): {لا قِوَامَ لِلدَّلَالَۃِ مَعَ النَّصِّ} ترجمہ: نص کے ساتھ دلالت کا کوئی گذارہ نہیں ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۵۳، باب من لہ من الأمراء أن یقبل وأن یقسم وأن یجعل الأرض أرض خراج ، قواعد الفقہ:ص۱۰۸، رقم القاعدۃ:۲۵۹)مثال: جب کسی چیز کا جواز دلالتاً ثابت ہو، اور اسی چیز سے متعلق صراحتاً نہی موجود ہو، تو نص کے مقابلہ میں دلالت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔قاعدہ(۲۷۰): {لا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِي مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ} ترجمہ: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی فرماں برداری درست نہیں۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۱۷۷، دار الکتب العلمیۃ بیروت، ۱/۶۹، باب ما یجب من طاعۃ الوالي وما لا یجب ، قواعد الفقہ:ص۱۰۶، رقم القاعدۃ:۲۵۳)فائدہ: یعنی ہر وہ صورت جس میں خالق کی نافرمانی ہوتی ہو، اس میں مخلوق کی فرماںبرداری نہیں کی جائے گی۔مثال: امراء کے وہ احکام جن میں دینی اعتبار سے لوگوں کی بھلائی ہو، وہ معمول بہا ہوں گے۔ اسی طرح وہ احکام جن کے متعلق یہ معلوم نہ ہو کہ ان پر عمل پیرا ہونے سے نفع ہوگا یا نقصان؟ وہ بھی معمول بہا ہوں گے، کیوںکہ طاعتِ امراء کی فرضیت نص قطعی سے ثابت ہے، لیکن اگر ان کے احکام کی تعمیل کرنے سے اللہ رب العزت کی نافرمانی لازم آتی ہو تو ان کے احکام معمول بہا نہیں ہوں گے،بلکہ وہ مردود ہوں گے، کیوں کہ قاعدہ ہے:’’ لا طاعۃ لمخلوق في معصیۃ الخالق‘‘۔ اورقرآن کریم میں بھی اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ فرمان باری تعالیٰ :{یا أیہا الذین آمنوا أطیعوا اللہ وأطیعوا الرسول وأولي الأمر منکم} ’’اے ایمان والو! بات مانو اللہ تعالیٰ کی اور بات مانو رسول کی اور وُلَاتِ امر کی‘‘۔ میں اللہ اور اس کے رسول سے پہلے فعل ’’ أطیعوا ‘‘ مکرر آیا ہے، جو مشیر ہے اس بات کی طرف کہ ان کی بات آپ کو ماننی ہی ہے، کیوں کہ ان کا حکم عینِ صواب اور منفعتِ