الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
کیوں کہ یومِ وصیت میں موصیٰ لہ کی حالت کا اعتبار ہوگا اور اس کی حالت، عدم استحقاقِ وصیت میں حکماً مردہ کی حالت ہے،کیوںکہ کافر کـے لئے مسلم کی وصیت درست نہیں، لہٰذا وصیت باطل ہوگی اور حربی کے اسلام قبول کرنے سے وصیتِ باطلہصحت میں تبدیل نہیں ہوگی؛ اگر موصی کے ورثاء انفاذِ وصیت کی اجازت دیں، تب بھی وصیت صحیح نہیں ہوگی؛ کیوںکہ اجازت موقوف کو لاحق ہوتی ہے باطل کو نہیں ۔مثال جزء ثانی: کسی شخص نے کسی کو حکم دیا کہ میرے لئے پانچ سوروپئے کا موبائل خریدو! مامور نے چھ سوروپئے کا خریدا تو مامور کا یہ خریدنا اپنے لئے ہی ہوگا،آمر کے لیے نہیں۔ اگر آمر بعد میں اس کی اجازت دے، تب بھی یہ موبائل آمر کا نہیں ہوگا؛ کیوںکہ اجازت موقوف کو لاحق ہوتی ہے، جائز کو نہیں؛ اور مامور کا موبائل کو چھ سوروپئے میں خریدنا جائز تو ہے، مگر آمر کی اجازت اس کو لاحق نہیں ہو سکتی۔مثال جزء اول: فضولی نے کسی کی مملوکہ شیٔ کواس کی اذن وتوکیل کے بغیر فروخت کردیا، تو یہ بیع ، بیعِ موقوف ہوگی، اور مالک کو اختیار ہوگا کہ وہ اس بیع کو نافذ یا فسخ کردے۔اجازت دینے کی صورت میں بیع نافذ ہوجائے گی۔ (ہدایہ:۳/۷۲)مثال جزء ثانی: لیکن اگراصل مالک کی اجازت سے پہلے مبیع ہلاک یا ضائع ہوجائے اور اس کے بعد اجازت کا تحقق ہو ، تو یہ بیع صحیح نہ ہوگی، کیوں کہ بوقتِ اذن مبیع کے موجود نہ ہونے کی صورت میں یہ اذن معدوم کی اذن ہوگی، جو باطل ہے۔ (ہدایہ:۳/۷۵)قاعدہ(۵): {الإجَازَۃُ اللَّاحِقَۃُ کَالْوَکَالَۃِ السَّابِقَۃِ} ترجمہ: اجازتِ لاحقہ، وکالتِ سابقہ کی مانند ہے۔ (قواعد الفقہ :ص۵۳، رقم القاعدۃ:۶، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۶۰۳، رقم المادۃ:۳۳)مثال۱: فضولی نے کسی دوسرے کے مال کو بیچ دیا، پھر صاحبِ مال کو اس کی اطلاع دی اور صاحبِ مال نے اس کی اجازت دے دی تو یہ بیع جائز ہوگی ، کیوں کہ اجازتِ لاحقہ، وکالتِ سابقہ کی مانند ہوتی ہے۔