الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۹۷): {اَلْعُرْفُ غَیْرُ مُعْتَبَرٍ فِي الْمَنْصُوْصِ عَلَیْہِ} ترجمہ: منصوص علیہ میں عرف غیرمعتبر ہوتا ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۹۲، القاعدۃ:۱۸۵)مثال: اموالِ ربویہ (گیہوں، جو، نمک،کجھور،سونا اور چاندی)’’ الحنطۃ بالحنطۃ ، والشعیر بالشعیر، والملح بالملح ، والتمر بالتمر، والذہب بالذہب ، والفضۃ بالفضۃ، مثلا بمثل ، یدا بید ، فمن زاد أو استزاد فقد ربا ‘‘میں ان کے کیلی یا وزنی ہونے میں عرف کا اعتبار نہیں ہوگا، ہاں! اموالِ ربویہ مذکورہ کے علاوہ دیگر اموال کے کیلی یا وزنی ہونے میں عرف کا اعتبار ہوگا۔وضاحت: واضح ہو کہ عرف کا غیر معتبر ہونا صرف انہی اموالِ ربویہ میں نہیں، بلکہ ہر منصوص علیہ (جس کے متعلق نص موجود ہے)میں وہ غیر معتبر ہوگا، کیوںکہ نص کے مقابلہ میں عرف کا اعتبار نہیں ہوتا ۔ (القواعد الفقہیۃ:ص۹۲)قاعدہ(۱۹۸): {اَلْعُرْفُ یَسْقُطُ إعْتِبَارُہٗ عِنْدَ وُجُوْدِ التَّسْمِیَۃِ بِخِلَافِہٖ} ترجمہ: عرف کا اعتبار ساقط ہوتا ہے، جب اس کے خلاف تسمیہ موجود ہو۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۲، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۹۲، القاعدۃ:۱۸۶)مثال: اگر بائع نے کسی چیز کو دس درہم کے بدلہ بیچا ،درانحالاکہ بائع و مشتری دونوں ایسے شہر میں ہیں جہاں مختلف دراہم کا چلن ہے، اور یہ دراہم مالیت و رواج میں مختلف ہیں،تو بیع ان میں سے اغلب درہم کی طرف منصرف ہوگی، کیوںکہ وہی متعارف ہے ،اور مطلق متعارف کی طرف منصرف ہوتا ہے، لیکن اگر بائع ان دراہم میں سے کسی ایک درہم کا متعین طور پر ذکر کردے، جو اغلب کے سوا ہے،مثلاً یوں کہے کہ میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ بیچ دی پاکستانی دس درہم کے عوض ، تو اب بیع اغلب درہم کی طرف منصرف نہیں ہوگی بلکہ پاکستانی دراہم کی ادائیگی ہی لازم ہوگی، کیوںکہ متعین درہم کے ذکر کی وجہ سے عرف کا اعتبار ساقط ہو گیا۔ (شرح الأشباہ والنظائر:۱/۲۷۱)