الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۵۴): {اَلرَّسُوْلُ مُعَبِّرٌ وَسَفِیْرٌ فَکَلامُہٗ کَکَلامِ الْمُرْسِلِ} ترجمہ: قاصد معبر وسفیر ہوتا ہے، اس لیے اس کا کلام مرسِل (بھیجنے والا) کے کلام کی مانند ہوتا ہے۔ (ترتیب اللآلی:۲/۷۳۴، قواعد الفقہ: ص۹۱)مثال۱: امیر لشکر کسی شخص کوبر بناء ضرورت ،قاصد بنا کر اہل قلعہ کے پاس بھیجے اور وہ قاصد جا کر کہے :میں تمہارے پاس امان لے کر آیا ہوں ، اور اہل قلعہ امان پر صلح کرلیں اور دروازہ کھول دیں، تو وہ مامو ن ہوں گے ۔ (حاشیۃ قواعد الفقہ:ص۹۱)مثال۲: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیغامات بندوں کو پہنچائے، اس پر امت کو عمل کرنا واجب ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں ، اور آپ کا کلام گویا کلامِ خداوندی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے : {وما ینطق عن الہویٰ ، إن ہو إلا وحيٌ یوحیٰ} ۔ (سورۃ النجم:۳،۴)مثال۳: امام یا سپہ سالار اپنے وزیر یا قاصد کو رعیت یا لشکر کے پاس کوئی پیغام دیکر بھیجے، تو رعیت اور لشکر کو اس پر عمل کرنا واجب ہے، کیوں کہ وزیر یا قاصد امام یا سپہ سالار کا پیغمبر ہے۔ (موسوعۃ القواعد الفقہیۃ: ۷/۳۶۸)قاعدہ(۱۵۵): {اَلزِّیَادَۃُ الْحَاصِلَۃُ فِي الْمَبِیْعِ بَعْدَ الْعَقْدِ وَقَبْلَ الْقَبْضِ کَالثَّمَرَۃِ وَأشْبَاہِہَا ہِيَ لِلْمُشْتَرِيْ} ترجمہ: عقدِ بیع میں ، بیع کے بعد قبضہ سے پہلے مبیع میں حاصل زیادتی مثلاً پھل وغیرہ مشتری کی ہوگی۔ (جمہرۃ: ۲/۷۴۴، رقم: ۹۵۱)مثال: کسی شخص نے کوئی غلام یا باندی خریدا ،اور قبضہ سے پہلے اس غلام یا باندی نے کوئی کمائی کی ، تو وہ کمائی مشتری کی ہوگی، اسی طرح کسی شخص نے کوئی کھیت خریدا، اورقبضہ سے پہلے اس میں غلہ برآمد ہوا ، تویہ غلہ بھی مشتری کا ہوگا ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۲۴/۷۳)