الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قاعدہ(۲۲۱): {اَلْقَاضِي لا یَمْلِکُ أنْ یَقْضِيَ لِنَفْسِہٖ} ترجمہ : فیصل اپنے حق میں فیصلہ کا مختار نہیں ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۱۶۵، باب نفل الأمیر ، قواعد الفقہ:ص۹۷، القاعدۃ:۲۰۷)مثال: امیر نے اعلان کیا کہ جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے اسباب (ساز وسامان) اسی کے ہوں گے، اس کے بعد خود امیرنے کسی کو قتل کیا تو وہ مقتول کے اسباب کا مستحق نہیں ہوگا،قیاس یہی ہے، ہاں! استحسانا مستحق ہوگا۔ (شرح السیر:۲/۴۸)قاعدہ(۲۲۲): {اَلْقُدْرَۃُ عَلَی الأصْلِ قَبْلَ حُصُوْلِ الْمَقْصُوْدِ بِالْخَلَف ِ تُسْقِطُ إعْتَبَارَ الْخَلَفِ} ترجمہ: خلیفہ (یعنی کسی چیز کا قائم مقام ) کے ذریعہ حصولِ مقصود سے پہلے اصل پر قادر ہونا، اعتبارِ خَلَف کو ساقط کردیتا ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۹۴ ، باب الاسترقاق علی المسلمین ، قواعد الفقہ:ص۹۷، القاعدۃ:۲۰۸)مثال۱: تیمم وضوء کا خلیفہ ہے، ایک شخص نے تیمم کیا، لیکن ابھی نماز نہیں ادا کی تھی کہ پانی مل گیا اور وضو پر قادر ہوگیا تو اس تیمم سے نماز درست نہیں ہوگی۔مثال۲: حربیہ دار الحرب میں مسلمان ہوئی اور اس کا شوہر کافر ہی رہاتو دونوں کا نکاح علی حالہٖ باقی رہے گا، تاوقتیکہ اس کو تین حیض نہ آجائیں، جب تین حیض گذر جائیں تو دونوں کے مابین فرقت واقع ہوگی(یعنی مضیِ ثلاث حیض عرض اسلام کے قائم مقام ہے) اس لئے کہ دونوں کے دارالحرب میں ہونے کی وجہ سے امام المسلمین کافر شوہر پر اسلام پیش کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اگر تین حیض آنے سے پہلے ہی دونوں دار الاسلام آئیں تو مردِ کافر، مسلمانوں کا مال غنیمت ہوگا، لیکن دونوں کے مابین نکاح باقی رہے گا اور فرقت واقع نہیں ہوگی، خواہ تین حیض گذر جائیں، جب تک کہ شوہر پر اسلام پیش نہیں کیا جاتا۔