الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ، ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔۔۔الخ (۷/۳۰۱،کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، مطلب فیمن ورث مالا حراما) متاخرین فقہاء مثلاً حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحبؒ ،حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوریؒ وغیرہ ،سودی رقم کو تمام رفا ہی کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جیسے عام لوگوں کے لئے بیت الخلاء، طہارت خانے بنوانا، اور سڑک، گٹر وغیرہ کے کام کرنا۔قاعدہ(۳۱۲): {مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ} ترجمہ: جس چیز کو مسلمان اچھاخیال کریں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۴/۱۴۹، باب ما یکرہ في دار الحرب وما لا یکرہ ، قواعد الفقہ:ص۱۱۵، القاعدۃ:۲۹۴، جمہرۃ القواعد ، المادۃ:۱۱۷۱)مثال۱: متاخرین علماء نے ہر نماز میںاذان واقامت کے مابین ہر ایسے کلمہ سے جو لوگوں کے درمیان متعارف ہو تثویب کو درست قرار دیا ہے، کیوں کہ آج کل اموردینیہ میں لوگوں میں غفلت وسستی عام ہوچکی ہے۔ ویثوّب بین الأذان والإقامۃ في الکل للکل بما تعارفوہ ۔ در مختار۔ قال الشامي: قولہ: (في الکل) أي کل الصلوات لظہور التواني في الأمور الدینیۃ ۔ قال في العنایۃ : أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلوات سوی المغرب مع إبقاء الأول : یعني الأصل وہو تثویب الفجر ۔ وما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن ۔ اہـ۔ (رد المحتار:۲/۵۶، کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب : في أول من بنی المنائر للأذان ، بیروت)مثال۲: بوقت جنگ یا اس کے علاوہ دیگر اوقات میں گھوڑے کے گلے میں مالاڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کیوںکہ یہ مجاہدین وغیرہ کے عمل میں سے ہے اور وہ اس کو اچھا گمان کیا کرتے تھے اور یہ قاعدہ ہے کہ جس عمل کو مسلمان اچھا گمان کریں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے۔ (شرح السیر:۲/۲۰۹)