الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۳۱): {اَلْکِتَابُ کَالْخِطَابِ} ترجمہ: تحریر کلام کے مثل ہے(یعنی لکھنا بولنے کے حکم میں ہے)۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۴۲ ، باب الشروط في الموادعۃ وغیرہا ، قبیل باب إثبات النسب من أہل الحرب من السبایا ، قواعد الفقہ:ص۹۹، القاعدۃ:۲۱۹، ترتیب اللآلي:ص۹۱۷، درر الحکام :۱/۶۹، المادۃ :۶۹، شرح القواعد:ص۳۴۹ ، القواعد الکلیۃ :ص۲۵۵)مثال: خرید و فروخت اور طلاق وغیرہ بلا تلفظ، محض تحریر سے درست ہوتے ہیں، لیکن اگر یہ بات دوگواہوں کی گواہی سے ثابت ہوجائے کہ یہ تحریر فلاں کی نہیں ہے اور نہ وہ اپنی تحریر ہونے کا اقرار کرے، تو محض تحریر کی بنیاد پر ان چیزوں کے عقد و فسخ کو درست نہیں قراردیا جائے گا، کیوںکہ ایک خط کبھی دوسرے خط کے مشابہ ہوتا ہے، اس وجہ سے اس میں احتمالِ خطا ہے۔ (الأشباہ والنظائر:ص۳۰۵)قاعدہ(۲۳۲): {کَسْرُ عَظْمِ الْمَیِّتِ کَکَسْرِ عَظْمِ الْحَيِّ} ترجمہ: میت کی ہڈی کو توڑ نا ایساہی ہے جیسے زندہ انسان کی ہڈی کو توڑنا۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۹۲، باب دواء الجراحۃ ، قواعد الفقہ:ص۱۰۰، القاعدۃ:۲۲۴)مثال: اگر کسی آدمی کو کسی عضو کی ضرور ت ہو اور وہ مردہ انسان کے عضو کو نکال کر اپنے جسم میں پیوند کاری کرنا چاہے تو شرعاً اس کی اجازت نہیں ہوگی، کیوں کہ مردہ کے کسی عضو کو کاٹ کراپنا علاج کرنا ایساہی ہے جیسا کہ زندہ انسان کے کسی عضو کو کاٹ کر اپنا علاج کرنا ،اور یہ شرعاً درست نہیں ہے ۔قاعدہ(۲۳۳): {کُلُّ أجَلٍ کَانَ مَعْرُوْفاً بَیْنَ التُّجَّارِ فَہُوَ جَائِزٌ} ترجمہ: ہر وہ میعاد جو تاجروں کے مابین معروف ہو ،وہ جائز ہے۔ (جمہرۃ:۲/۸۱۴، رقم :۱۴۱۴)مثال: اگر تاجرکوئی چیزکسی ثمن کے عوض بیچ دے، اور نقد وادھار کی کوئی صراحت نہ کرے، اوراس بازار کا عرف یہ ہو کہ بائع ہر جمعہ کو متعین ثمن لیتا ہے، تو یہ عقد جائز ہے ۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۲۵۲)