الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: زید نے عمرو کو کوئی چیز ہبہ کردی، تو یہ ہبہ اس وقت تک پورا نہیں ہوگا، جب تک کہ عمرو اس پر قابض نہ ہو۔قاعدہ(۲۷۴): {لا یَثْبُتُ شَيئٌ مِنَ الْحُکْمِ بِبَعْضِ الْعِلَّۃِ} ترجمہ: جزئِ علت سے جزئِ حکم ثابت نہیں ہوگا۔ (شرح السیر الکبیر:۴/۵۷، باب ما یکون إحرازاً منہم وما لا یکون ، قواعد الفقہ:ص۱۰۹، رقم القاعدۃ:۲۶۳)مثال: احناف کے نزدیک علتِ ربوٰ قدر وجنس ہے، اب اگر صرف قدر کا تحقق ہو اور جنس کا نہیں، یاجنس کا تحقق ہو قدر کا نہیں، تو حکمِ ربا ثابت نہیں ہوگا۔قاعدہ(۲۷۵): {لا یَجْرِي الْعُمُوْمُ فِي مُقْتَضَی النَّصِّ} ترجمہ: مقتضائے نص میں عموم جاری نہیں ہوتا ہے ۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۹، رقم القاعدۃ:۲۶۴)مُقتضٰی: نفسِ کلام میں وہ زیادتی جس کے بغیر کلام کے معنی صحیح نہ ہو تے ہوں۔مثال: اگر کوئی آدمی یوں کہے کہ :’’إن أکلت فامرأتي طالق‘‘ اگر میں کھانا کھائوں تو میری بیوی طلاق والی ہے، اس قَسم کے بعد طعام سے کسی خاص کھانے کی نیت کرے، مثلاً بریانی وغیرہ کی تو اس کی یہ نیت درست نہیں ہوگی، اور کسی بھی کھانے کے کھالینے سے اس کی بیوی مطلقہ ہوجائے گی، کیوںکہ اس کا کلام ’’إن أکلت‘‘ مصدر ’’ طعاماً ‘‘ کا مقتضِی ہے، تو طعام علی سبیل الاقتضاء ثابت ہے ،اور جو چیز اقتضاء ً ثابت ہوتی ہے اس میں عموم جاری نہیں ہوتاہے، جب کہ تخصیص کے لئے تعمیم ضروری ہے۔قاعدہ(۲۷۶): {لا یَجُوْزُ الِاحْتِجَاجُ بِالْمَفْہُوْمِ فِي کَلامِ النَّاسِ} ترجمہ: لوگوں کے کلام میں مفہوم سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۹، رقم القاعدۃ:۲۶۵)فائدہ: جو چیز لفظ سے مفہوم ہوگی وہ دو حال سے خالی نہیں ،یا تو لفظِ صریح سے مفہوم ہوگی یانہیں، پہلی کو منطوق اور دوسری کو مفہوم کہتے ہیں،یعنی جو چیز صراحت لفظ سے مفہوم نہ ہو، بلکہ دلالت لفظ سے مفہوم ہو اس کو مفہوم کہتے ہیں۔