الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال۲: کسی شخص نے بکرے کا گوشت خریدا ،بعد از تحقیق معلوم ہوا کہ وہ گائے کا ہے، تو اسے خیارِ عیب حاصل ہوگا ، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت میں لے لے، یا لوٹادے۔ (دررالحکام :۱/۳۴۴)فائدہ: مبیع میں عیب وہ کہلاتا ہے جو تاجروں کے نزدیک نقصانِ قیمت کا موجب ہو۔یا عیب وہ کہلائے گا کہ اس کے پائے جانے پر مبیع کی غرض ومقصود فوت ہوتی ہو، یا عیب وہ شی ٔ کہلائے گی جس کا ازالہ بلا مشقت ممکن نہ ہو، ان تمام صورتوں میں چونکہ مبیع کی مالیت میں کمی واقع ہوگی، اور نقصان فی المالیۃ ، نقصان فی القیمۃ کو لازم ہے۔ (ملتقی ومجمع الأنہر ، بحوالہ درر الحکام:۱/۳۴۳)قاعدہ(۲۴۹): {کُلُّ مَا حَرُمَ بَیْعُہٗ حَرُمَ الإنْتِفَاعُ بِہٖ} ترجمہ: ہر ایسی چیز جس کی بیع حرام ہے اس سے انتفاع بھی حرام ہے۔ (جمہرۃ:۲/۶۶۸، رقم :۴۵۶)مثال: شراب کی خریدو فروخت حرام بنصِ قطعی ہے، ا س کی بیع باطل ہے، اور اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں ہے، چاہے ادویات کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو ۔ (فتاوی حقانیہ: ۶/۴۲۔۴۳)قاعدہ(۲۵۰): {کُلُّ مَا حَرُمَ فِیْہِ التَّفَاضُلُ حَرُمَ فِیْہِ النَّسَأُ} ترجمہ: ہر ایسی چیز جس (کی نقد بیع) میں کمی بیشی حرام ہے ، اس میں ادھار بھی حرام ہے۔ (جمہرۃ القواعد:۲/۸۵۱، رقم:۱۶۴۶)مثال : کھجور اور گیہوں میں تفاضل جائز نہیں، لہذا اس میں ادھار بھی جائز نہیں ہے ۔ (مستفاد من الہدایۃ:۳/۷۹)وضاحت: مکیلات کی بیع میں اتحاد جنس یا اتحاد قدر کے وقت نساء(ادھار) حرام ہے ۔ (احسن الفتاوی: ۷/۱۳) جب کہ تفاضل کے لیے اتحاد مع الجنس ضروری ہے، اگر کوئی ایک ہی پایاجائے توتفاضل جائز ہے، اور نساء حرام ہے، جیسا کہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں: ’’ وعلتہ أي علۃ تحریم الزیادۃ القدر المعہود بکیل أو وزن مع الجنس ، فإن وجدا حرم التفاضل والنساء، فلم یجز قفیز بر بقفیز منہ متساویاً وأحدہما نسائً وإن عدما حلا ‘‘۔ (الدر المختار مع الشامي:۷/۳۰۵، باب الربا، مجمع الأنہر شرح ملتقی الأبحر: ۳/۱۲۰، کتاب البیوع، باب الربا)