الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۵۶): {اَلزِّیَادَۃُ عَلَی الْکِتَابِ نَسْخٌ فَلا یَکُوْنُ إلَّا بِآیَۃٍ نَاصَّۃٍ أوْ حَدِیْثٍ مَشْہُوْرٍ نَاصٍّ} ترجمہ: کتاب اللہ پر زیادتی نسخ ہے،تووہ صرف آیتِ صریحہ یا حدیثِ مشہور صریح سے ہی درست ہوگا۔ (قواعد الفقہ:ص۸۳ ، القاعدۃ:۱۴۲)مثال۱: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :{إذا قمتم إلی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوہکم وأیدیکم إلی المرافق وامسحوا برؤوسکم وأرجلکم إلی الکعبین}۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کا ارادہ کرو تو دھوؤ اپنے چہروںکو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت، اور مسح کرو اپنے سروں کا، اور دھوؤ اپنے پیروں کو ٹخنوں سمیت۔ (النساء:۶) اس آیتِ کریمہ میں مطلقاً وضو کا حکم دیا گیاہے، اَخبارِ آحاد کے ذریعہ پے درپے، ترتیب اور نیت کو شرط قرار دینا، آیت کے اطلاق کو مقید کرنا ہے، جو نسخ ہے، اور یہ اَخبارِ آحاد سے درست نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ احناف کے نزدیک مذکورہ چیزیں (ولاء، ترتیب اور نیت) سنت ہیں اور ان کے ترک کے باوجود بھی وضو ہو جائے گا۔مثال۲: بعض لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان: {کتب علیکم إذا حضر أحدکم الموت}سے والدین اوران اقرباء کے لیے جو وارث نہیں ہوا کرتے ہیں، کے واسطے وجوبِ وصیت پر استدلا ل کیا ہے، جب کہ یہ آیت حدیثِ مشہور : ’’ لا وصیۃ لوارث ‘‘ سے منسوخ ہے، اور حدیثِ مشہور سے نسخِ کتاب جائز ہے۔جیسا کہ امام بخاری ؒ نے حضرت عطا و ابن عباسؓ سے اپنی صحیح میں اس حدیث کی تخریج فرمائی، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: کہ لڑ کے کے مال میں والدین کے لیے وصیت ہوا کرتی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے اچھے حکم کے ذریعہ اسے منسوخ کردیا، کہ لڑکے کے لیے لڑکی کا دوگنا ، اور والدین میںسے ہرایک کے لیے سدس مقرر فرمایا، نیز سنن میں حضرت ابو امامہ ؓکی اسناد سے یہ روایت منقول ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر صاحبِ حق کو اس کا حق عطا کردیا،اس لیے وارث کے لیے کوئی وصیت درست نہیں ہے‘‘۔