الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۵۱): {کُلُّ مَا لا یَخْتَلِفُ بَالْمُسْتَعْمِلِ فَالتَّقْیِیْدُ بَاطِلٌ} ترجمہ: ہر وہ چیز، جو استعمال کرنے والے کے سبب نہیں بدلتی ہے، اس میں قید لگانا باطل ہے۔ ( قواعد الفقہ:ص۱۰۲، رقم القاعدۃ:۲۳۱)مثال: زید نے عمرو کا مکان کرایہ پر لیا، عمرو نے یہ قید لگائی کہ آپ ہی اس میں رہیں گے ،تو زید کے لئے اختیار ہے کہ وہ خود رہے یابلا اجازتِ عمرو کسی دوسرے کو اس میں رہائش دے ،کیوںکہ مکان ایسی چیز ہے جو مستعمِل کے سبب نہیں بدلتی، لہٰذا عمرو کی طرف سے قید لگانا باطل ہوا ،اور جب تقیید باطل ہے تو کرایہ دار کو اختیار ہے، خواہ وہ خود رہے یا کسی اور کو اس میں رہائش دے۔قاعدہ(۲۵۲): {کُلُّ مَا یَجُوْزُ فَعْلُہٗ بِغَیْرِ إقْرَاعٍ الْأَوْلٰی لِلإمَامِ أنْ یُقْرِعَ تَطْیِِیْبًا وَنَفْیًا لِلتُّہْمَۃِ} ترجمہ: ہر وہ چیزجس کو بلاقرعہ اندازی کرنا جائز ہے، امام کے لئے بہتر ہے کہ وہ دل جوئی اور نفی تہمت کے لئے قرعہ اندازی کریں ۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۲۶، باب الشروط في الموادعۃ وغیرہا ، قواعد الفقہ:ص۱۰۲، رقم القاعدۃ:۲۳۲)مثال: کسی آدمی کی کئی بیویاں ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ حضر میں ،یعنی اپنے مقام پر رہتے ہوئے، شب باشی کے لئے باری لگائے، مثلاً آٹھ دن ایک کے یہاں تو دوسرے آٹھ دن دوسری کے یہاں، اسی طرح ایک ایک ہفتہ کی باری لگائے۔ رہی بات سفر کی تو شوہر پر لازم نہیں کہ ایک مرتبہ ایک کو لے جائے اور دوسری مرتبہ دوسری کو، بلکہ اسے اختیار ہے کہ جسے چاہے ساتھ لے جائے، لیکن قرعہ اندازی کرلے تو بہتر ہے، تاکہ سب عورتوں کی دل جوئی ہو اور ایک دوسری پر حسدنہ کریں، کیوںکہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یہ بات ملتی ہے کہ جب آپ کسی سفر کا ارادہ فرماتے ،تو اپنی ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرلیاکرتے ،اور جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنی ہمراہی کا شرف عطا فرماتے۔