الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: فرمانِ باری تعالیٰ:{ولکن یؤاخذکم بما عقدتم الأیمان فکفارتہ إطعام عشرۃ مساکین} میں لفظ ’’عقد‘‘ کو احناف نے عقد پر محمول کیا جو معنی ٔاجلیٰ ہے کہ وہ مستقبل میں ہوتا ہے، اورحضرت امام شافعیؒ نے عقد کو عزمِ قلب پر محمول کیا، جب کہ عزم قلب ماضی پر بھی واقع ہوتاہے،اس لیے یہاں معنی ٔعقدجو اجلیٰ ہے،معنی ٔ عزم قلب جو اخفیٰ ہے،کی بنسبت اولیٰ ہوگا۔(۲۶){أَلأَصْلُ أَنَّ مَا ثَبَتَ بِالْیَقِیْنِ لا یَزُوْلُ بِالشَّکِّ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ شیٔ ثابت بالیقین، شک سے زائل نہیں ہوتی ہے ۔مثال: جس شخص کو وضو کا یقین اور حدث میں شک ہو تو ایسا شخص باوضو ہوگا، جب تک کہ اسے حدث کا یقین نہ ہو، اور جس شخص کو حدث کا یقین ہو اور وضو میں شک ہو تو وہ بے وضو ہو گا جب تک کہ وضو کا یقین نہ ہو۔(۲۷) {اَلأَصْلُ أَنَّ الْمُتَعَاقِدَیْنِ إِذَا صَرَّحَا بِجِہَۃِ الصِّحَّۃِ صَحَّ الْعَقْدُ وَإذَا صَرَّحَا بِجِہَۃِ الْفَسَادِ فَسَدَ وَإِذَا أَبْہَمَا صُرِفَ إِلَی الصِّحَّۃِ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ جب متعاقدین کسی عقد میں جہتِ صحت کی صراحت کردیں ، تو عقد صحیح ہوگا ،اور جب جہت فساد کی صراحت کردیں ،توعقد فاسد ہوگا، اور جب اس میں ابہام رکھیں، تو عقد کو صحت کی طرف پھیرا جائے گا۔مثال: کسی آدمی نے چاندی کا کنگن (جس کا وزن دس درہم کے بقدر ہو) اور ایک کپڑا (جس کی قیمت دس درہم ہو) دونوں کو بیس درہم میں فروخت کیا، اس شرط پر کہ دس درہم ایک مہینہ تک کے لئے ادھار ہوں گے۔ اب اگرمتعاقدین (بائع و مشتری) اس بات کی صراحت کردیں کہ دس درہم جو ادھار ہیں، وہ کپڑے کا ثمن( قیمت) ہیں ،اور دوسرے نقد دس درہم کنگن کا ثمن ہیں،تو بیع درست ہوگی، کیوںکہ کنگن کی بیع نقد دس درہم کے عوض ہوئی، پس ربوا کا تحقق نہیں ہوگا۔