الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال : اگرکوئی شخص کسی مکان پر قابض ہے، اور ایک شخص آکر یہ کہتا ہے کہ یہ مکان میرا ہے، تو قبضۂ ظاہری استحقاق مدعی کے لئے دافع ہو گا، اور مدعی کے حق میں اس وقت تک فیصلہ نہیں کیا جائے گا، جب تک کہ وہ بیّنہ پیش نہ کرے۔ اب اسی مکان مقبوضہ کے پڑوس والامکان بیچا جارہاہو، اور قابض شخص حقِ شفعہ کے سبب ا سے خریدنا چاہتا ہو، مگر مدعی علیہ اس کے لیے حق شفعہ کا منکر ہے، تو ایسی صورت میں وہ حق شفعہ کا مستحق نہیں ہوگا، جب تک کہ بینہ سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ وہ مکان جس پر وہ قابض ہے اسی کا ہے۔مثالِ ہذا میں قبضۂ ظاہری دافعِ استحقاق تو ہوا، موجبِ استحقاق نہیں ۔فائدہ: جوشخص خلاف ظاہر کا دعوی کرے وہ مدعی ہوتا ہے، اور جو موافق ظاہر کا دعوی کرے وہ مدعی علیہ ۔ خوب سمجھ لو! ہمارے طلباء عموماً تعیینِ مدعی و مدعیٰ علیہ میں غلطی کر بیٹھتے ہیں اور یوں سمجھتے ہیں کہ جو پہلے دعویٰ کرے وہ مدعی، اور جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا وہ مدعیٰ علیہ، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر مدعی اور مدعیٰ علیہ کی تعیین میں غلطی واقع ہو تو دونوں کے وظیفوں کی تعیین میں بھی غلطی ہوگی، کیوںکہ مدعی کا وظیفہ بینہ پیش کرنا اور مدعیٰ علیہ کا وظیفہ قسم کھانا ہے۔ ’’ البینۃ علی المدعِي والیمین علی من أنکر‘‘۔ (الحدیث)(۱۷){اَلأَصْلُ أَنَّ الظَّاہِرَیْنِ إِذَا کَانَ أَحَدُہُمَا أَظْہَرَ مِنَ الاٰخَرِ فَالأَظْہَرُ أَوْلیٰ بِفَضْلِ ظُہُوْرِہٖ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ جب دو ظاہر جمع ہوں اور ان میں سے ایک، دوسرے کی بنسبت اظہر ہو تو اظہر، ظاہر سے اولیٰ ہوگا بسبب زیادتی ٔ ظہور ۔مثال: اگر کوئی شخص جنین یعنی حمل کے لئے دَین کا اقرار کرے توحضرت امام محمدؒ کے نزدیک اس کا یہ اقرار صحیح ہے ، گرچہ حمل میں احتمال ہے، حضرت امام ابویوسفؒ کے نزدیک شخص مذکور کا اقرار صحیح