الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: ظہر کی نماز میں کسی شخص نے یوں نیت کی کہ میںظہر کی تین رکعتیں پڑھتاہوں یا پانچ رکعتیں پڑھتاہوں ،تو عددِ رکعات کی تعیین میں خطا سے نماز کی صحت میںکوئی خلل واقع نہیں ہوگا ، کیوں کہ عددِ رکعات کی تعیین نیتِ نماز میں شرط نہیں ہے، اور جس چیز میں تعیین شرط نہیں ،اس میں خطا مضر نہیں۔قاعدہ(۱۴۳): {خَیْرُ الأمُوْرِ أوْسَطُھَا} ترجمہ: بہترین امر، درمیانی ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۱۸۵، باب من الشرکۃ في النفل وما یؤخذ بحساب ، ۵/۳، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۸۰، القاعدۃ:۱۳۲)مثال۱: جب ورثائِ میت اور وصی (وہ شخص جس کو وصیت کی جائے) کے درمیان اعداد میںاختلاف ہو تودرمیانی عددکو اختیار کیا جائے گا،مثلاً وصی کہے فلاں کے لئے دوہزار روپے کی وصیت کی گئی اور ورثاء کہے ایک ہزار کی، تو درمیانی عدد یعنی پندرہ سوکو اختیار کیا جائے گا۔مثال۲: اگر کوئی شخص مملکتِ اسلامیہ کی طرف سے وصولی ٔ صدقات کے لیے مقرر ہے، تو وہ معطیینِ صدقات سے ایسا متوسط مال وصول کرے، جس میں فقراء کا فائدہ ہو اور مالکین کا بھی نقصان نہ ہو۔ (شامي:۳/۱۹۶، باب زکاۃ الغنم)قاعدہ(۱۴۴): {دَرْئُ الْمَفَاسِدِ أوْلیٰ مِنْ جَلْبِ الْمَنَافِعِ} ترجمہ: دفعِ مفاسد اولیٰ ہے تحصیلِ منافع سے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۳۲۲ ، درر الحکام:۱/۴۱ ، المادۃ:۳۰ ، قواعد الفقہ:ص۸۱، القاعدۃ:۱۳۳، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ :۲/۷۳۳، رقم القاعدۃ :۸۹۱، ترتیب اللآلي:ص۶۹۱، القواعد الفقہیۃ:ص۱۷۰، شرح القواعد:ص۲۰۵، القواعد الکلیۃ:ص۱۸۲)توضیح: قاعدہ کی وضاحت یہ ہے کہ جب مفاسد اور مصالح کے درمیان تعارض ہو تو دفعِ مفاسد اولی ہے تحصیل مصالح سے، کیوںکہ شریعت نے مامورات سے زیادہ منہیات پر توجہ دی ہے ۔جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:{ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہوا}۔ (الحشر:۷) اور