الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ: {فلا جناح علیہما أن یصلحا بینہما صلحاً والصلح خیر}’’ سو دونوں کو اس امر میں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے‘‘۔ (سورۂ نساء :۱۲۸) آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو قرائن کے ذریعے اپنے شوہر سے بددماغی، کج ادائی یا بے پرواہی اور بے رخی کاغالب احتمال ہو،تو ایسی حالت میں دونوں کو اس امرمیں کوئی گناہ نہیں کہ دونوں باہم ایک خاص طور پر صلح کرلیں، یعنی اگر عورت ایسے شوہر کے پاس رہنا چاہے جو اس کے پورے حقوق نہیں اداکرنا چاہتا ،تاکہ اس سے چھٹکارا حاصل کرے، تو عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنے کچھ حقوق ،مثلاً نان ونفقہ معاف کردے، تاکہ شوہر اسے نہ چھوڑے، اور شوہر کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ اس معافی کو قبول کرے۔ فرمانِ باری تعالیٰ:{الصلح خیر}’’صلح بہتر ہے‘‘۔یہاں صلح سے مراد عام صلح ہے ۔ یہاں اولِ آیت خصوص ، اور آخرِ آیت عموم پر محمول ہے۔(۳۴){اَلأَصْلُ أَنَّہٗ یُعْتَبَرُ فِي الدَّعَاويْ مَقْصُوْدُ الْخَصْمَیْنِ فِي الْمُنَازَعَۃِ دُوْنَ الظَّاہِرِ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ بصورتِ منازعہ (جھگڑا) دعاوی میں فریقین کا مقصود معتبر ہوتا ہے ،نہ کہ ظاہر۔مثال: جب امین سے صاحبِ امانت اپنی امانت کا مطالبہ کرے اور امین جواباً کہے: ’’رَدَدْتُّ‘‘(میں نے امانت واپس کردی)، اب صاحبِ امانت کہے: آپ نے واپس نہیں کی، تو امین ہی کاقول معتبر ہوگا، باوجودیکہ وہ مدعی ٔظاہر ہے (جو اس کے قول ’’رَدَدْتُّ‘‘ سے ثابت ہورہا ہے) ۔ امین کا قول اس لئے معتبر ہے کہ مقصود من المنازعہ امین پر وجوب ضمان ہے، جب کہ وہ ضمان کا منکرہے، لہذا اسی کا قول معتبر ہوگا۔(۳۵) {أَلأَصْلُ أَنَّہٗ یُفَرَّقُ بَیْنَ عِلَّۃِ الْحُکْمِ وَحِکْمَتِہٖ فَإنَّ عِلَّتَہٗ مُوْجِبَۃٌ وَحِکْمَتَہٗ غَیْرُ مُوْجِبَۃٍ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہ علتِ حکم اور اس کی حکمت کے مابین فرق کیا جائے گا، کیوںکہ علتِ حکم، مثبتِ حکم ہوتی ہے اورحکمتِ حکم ،مثبتِ حکم نہیں ہوتی۔