الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
وہم ہے اور قرینہ قاطعہ یعنی شخصِ مذکور کے ہاتھ میں خون میں ملوث چھری کا موجود ہونا، اس کا حواس باختہ اور خوف کے عالم میں ہونا، کی موجودگی میں احتمالاتِ وہمیہ معتبر نہیں ہونگے۔قاعدہ(۲۶۵): {لا عِبْرَۃَ بِالدَّلالَۃِ فِيْ مُقَابَلَۃِ الصَّرِیْحِ} ترجمہ: صریح کے مقابلہ میں دلالت کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (شرح القواعد الفقہیۃ:ص۱۴۱، القوعد الکلیۃ :ص۱۵۹، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۱/۵۶۹، موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۶/۲۲۷، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام:۱/۳۱، المادۃ:۱۳، شرح المجلۃ لسلیم رستم باز:ص۲۵)مثال: اگر کوئی شخص کسی کے مکان میں اس کی اجازت سے داخل ہوا ،اور گھر میں لگے ہوئے دسترخوان سے پانی کا گلاس لیکر پینے لگا،اور اس دوران گلاس اس کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا ، تو وہ ضامن نہیں ہوگا، ہاں !اگر صاحبِ مکان پانی پینے سے منع کردے ، اور و ہ گلاس اٹھا کر پانی پیناشروع کردے ، اور اس دوران گلاس ٹوٹ جائے ، تو وہ ضامن ہوگا، کیوں کہ پہلی صورت میں دلالۃً اذنِ شرب ہے، جب کہ دوسری صورت میں صراحۃً ممانعت ہے ۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۱۵۹)قاعدہ(۲۶۶): {لا عِبْرَۃَ بِالظَنِّ الْبَیِّنِ خَطَأُہٗ} ترجمہ: جس گمان کا مبنی بر خطا ہونا ظاہر ہو، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۴۹۵ ، الأشباہ والنظائر للسیوطي :۱/۳۳۸، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ : رقم القاعدۃ :۱۸۴۷، القواعد الفقہیۃ :ص۳۰۹ ، قواعد الفقہ:ص۱۰۷، رقم القاعدۃ:۲۵۶، شرح القواعد:ص۱۶۲، درر الحکام :۱/۷۲، المادۃ :۷۲)مثال: اگر کسی شخص نے کسی کو کوئی رقم یہ گمان کرکے دی کہ وہ اس پر بطور دین واجب تھی، بعدہٗ اس کے خلاف ظاہر ہوا ،یعنی اس نے جان لیا کہ اس پر دین نہیں تھا، تو اسے حق ہے کہ وہ دین میں ادا کردہ رقم واپس لے لے، کیوںکہ وہ ظن جس کی خطا ظاہر ہو معتبر نہیں ہوا کرتا، تو ایسے ظن کو بنیاد بنا کر جو رقم اس نے دَین سمجھ کر اداکی تھی، اس کو واپس لینے کا حق بھی اسے حاصل ہوگا۔