الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
چنانچہ قرن اول ہی سے قرآن وسنت کی بصیرت رکھنے والے علماء نے ان کلیات اساسیہ کو جمع کرنے کی فکر کی، تاآںکہ فقہ و اصول فقہ وقواعد فقہ کے نام سے ایک اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہوگیا؛ جو بعد میں مستقل ہو کر فن کی حیثیت اختیار کر گیا۔ یہاں پہنچ کر اب ہمارے لئے اس موضوع (فقہ اور اس کے اصول و قواعد) کے تعارف کے لئے امور ذیل کی واقفیت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ فقہ، اصول فقہ، قاعدۂ فقہ، ضابطہ فقہ کا باہمی فرق اور ان کا تاریخی ارتقاء۔فقہ : فقہ کی تعریف مختلف الفاظ میں کی گئی ہے ۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اس طرح تعریف کی ہے:’’ إن الفقہ ہو معرفۃ النفس ما لہا وما علیہا‘‘ یعنی اپنے نفع ونقصان اور حقوق وفرائض کو جاننے کا نام فقہ ہے ۔ (البحر الرائق ۱/۶) علامہ ابن خلدون نے فقہ کی تعریف میں لکھا ہے کہ افعال مکلفین کو اس حیثیت سے جاننا کہ وہ واجب ہیں یا ممنوع، مستحب اور مباح ہیں یامکروہ ۔ (مقدمہ ابن خلد ون:ص۴۴۵) قاضی محب اللہ بہاریؒ نے فرمایا: ’’ہو العلم بالأحکام الشرعیۃ عن أدلتہا التفصیلیۃ‘‘۔ ادلۂ تفصیلیہ سے نکلے ہوئے احکام شرعیہ کی معرفت کانام فقہ ہے۔ (مسلم الثبوت۱/۱۰،۱۱) ان سب تعریفات کا حاصل یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ اس کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے ، یہی فقہ ہے ۔اصول فقہ : ان بنیادوں کو جاننے کا نام ہے، جن پر احکام فقہیہ مبنی ہوتے ہیں۔ علامہ ابن ہمامؒ نے یوں تعریف کی ہے : ’’ہوادراک القواعد التی یتوصل بہا إلی استنباط الفقہ‘‘۔ (التحریر لإبن الہمام :ص۴۸) قاضی ابویعلی بغدادی فرماتے ہیں: ’’ہو عبارۃ عما یبتنی علیہ مسائل الفقہ و تعلم أحکامہا‘‘ یعنی اصول فقہ وہ قوانین ہوتے ہیں، جن کی مدد سے فقہ کے مسائل مستنبط ہوتے ہیں۔ (العدۃ في أصول الفقہ:ص۷۰)