الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
توضیحِ قاعدہ: جب تک کلام کو کسی بھی معنی پر خواہ حقیقت ہویا مجاز، محمول کرنا ممکن ہو، اسے مہمل نہیں قرار دیاجائے گا، اگر حقیقت پر محمول کرنا ناممکن ہو تو مجاز پر محمول کیاجائے گا اور اگر مجاز پرمحمول کرنا بھی ناممکن ہو تو اب عدمِ امکانِ اعمال (کارآمد بنانا ناممکن ہونا) کی وجہ سے وہ مہمل ہوگا۔مثال: کوئی آدمی اپنی اس بیوی کو جس کا نسب کسی دوسرے انسان سے معروف و مشہور ہے یہ کہے: ’’ ہذھ ابنتي‘‘ یہ میری بیٹی ہے ، اب یہاں کلام کو حقیقت پر محمول کرنا ناممکن ہے، کیوںکہ اس کا نسب دوسرے سے معروف ومشہور ہے ، نیز اس کے کلام کو مجاز پر محمول کرنا بھی ممکن نہیں، کیوںکہ مجاز اس وقت مراد ہوسکتا ہے، جب کہ حقیقت ومجاز کے درمیان کوئی مناسبت ہو اور یہاں ایسا نہیں ہے، کیوںکہ بیٹی ہونا نکاح کے منافی ہے او ر جب نکاح کے منافی ہے تو طلاق کے بھی منافی ہوگا، اس لیے کہ نکاح اصل ہے اور طلاق اس کی فر ع،جب معنی حقیقی ومجازی کے درمیان کوئی مناسبت نہیں تو مجاز مراد نہیں ہوسکتا ، اس لیے کلام مہمل ہوگا۔قاعدہ(۴۳): {اَلإقْرَارُ إخْبَارٌ لا إنْشَائٌ فَلا یَطِیْبُ لِلْمُقَرِّ لَہٗ لَوْ کَانَ کَاذِباً} ترجمہ: اقرار اخبار ہے، انشاء نہیں، لہذا مقرلہٗ (جس کے لئے اقرار کیا گیا) کے لئے اقرار کردہ شیٔ حلال نہیں ہوگی، جب کہ مقر جھوٹاہو۔ (قواعد الفقہ:ص۶۰، القاعدۃ:۴۰)مثال: اگر مقر جھوٹا ہو تواس کے اقرار سے ،اقرار کردہ شی ٔ میں مقَرلہ کی ملکیت ثابت نہ ہوگی، مثلاًکوئی آدمی جھوٹ موٹ یوں ہی کہے : فلاں کا کھجور کا درخت تھا اور میں نے اس کی کھجور کوضائع کردیا، تو اس جھوٹے اقرار سے مقرلہ کے لئے ملکیت ثابت ہو کر، مقِرپر مقَرلہ کے لیے کوئی ضمان لازم نہیں ہوگا۔قاعدہ(۴۴): {اَلإقْرَارُ فِيْ حَقِّ الْمُقِرِّ یَلْزَمُ کَقَضَائِ الْقَاضِي} ترجمہ: اقرار مقر کے حق میں ایساہی لازم ہوتا ہے؛ جیسے قضاء قاضی لازم ہوتا ہے ۔ (شرح السیرالکبیر:۵/۶، باب الموادعۃ ، ۵/۶۵، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۶۱، القاعدۃ:۴۱)مثال: کسی آدمی نے دوسرے کے لئے کسی عین شیٔ کا اقرار کیا ، پھروہ اس شیٔ کا مالک ہوا تو اسے اس شی ٔ کو مقر لہ کے حوالہ کرنے کا حکم دیا جائے گا۔فائدہ: تصدیق بھی اقرار ہی کی مانند ہے، سوائے تصدیق فی الحدودکے۔