الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۸۳): {تَخْصِیْصُ الشَّيْئِ بِالذِّکْرِ یَدُلُّ عَلٰی نَفْيِ الْحُکْمِ عَمَّا عَدَاہُ فِي مُتَفَاہَمِ النَّاسِ وَعُرْفِہِمْ لا فِيْ خِطَابَاتِ الشَّرْعِ} ترجمہ: لوگوں کے مفہوم وعرف میں کسی چیز کو خصوصاً ذکر کرنا، اس کے ماسوا میں حکم کے نہ پائے جانے پر دال ہے، البتہ خطاباتِ شرع میں ایسا نہیں ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۶۸، القاعدۃ:۷۸)مثال۱: کوئی آدمی کسی سے یوں کہے کہ: آپ کے میرے ذمہ ایک ہزار روپئے سے زیادہ نہیں، تو اس کا یہ کلام ایک ہزار روپئے کا اقرار ہے، اس سے زائد کا نہیں ۔مثال۲: غایۃ البیان میں مرقوم ہے کہ عورت پر غسلِ جنابت کرتے وقت اپنی چوٹی کھولنا ضروری نہیں، یہ تخصیصِ مرأۃ مرد کے لیے نفی حکم پر دال ہے، لہذا مرد کے لیے چوٹی کھولنا ضروری ہے۔ (عقود رسم المفتي:ص۱۶۹)قاعدہ(۸۴):{تَخْصِیْصُ الْعَامِ بِالنِّیَۃِ فِي الأیْمَانِ مَقْبُوْلٌ دِیَانَۃً لَا قَضَائً} ترجمہ: قسموں میںنیت سے عام کی تخصیص دیانۃً تو مقبول ہے، قضائً نہیں۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۷۱ ، قواعد الفقہ:ص۶۹، القاعدۃ:۷۹)مثال: کسی آدمی نے کہا : ’’ ما أکلت طعاماً ‘‘میں نے کوئی کھانا نہیں کھایااور دل میں یہ نیت کی کہ میں نے گھر میں کوئی کھانا نہیں کھایا ،تو اس کا نیت کے ساتھ ’’عام ‘‘(گھر میں یا گھر کے باہرکھانا کھانا)کو خاص کرنا دیانتاً جائز ہے، لیکن اگر وہ یوں کہے : ’’ کل امرأۃ أتزوجہا فہي طالق ‘‘ ہر وہ عورت جس سے میں شادی کروں، وہ مطلقہ ہے؛ پھر یہ کہے کہ میں نے فلاں شہر کی عورتوں کی نیت کی تو اس کی یہ تخصیص قضاء اً مقبول نہ ہوگی اور جس گاؤں و شہر کی عورت سے بھی شادی کرے گا، وہ مطلقہ ہوگی۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۷۱)