الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
نوٹ: تین مسئلوں میں بعض کل سے بڑھ جاتا ہے:مسئلہ اولٰی : کسی آدمی نے باپ کی اجازت سے بچہ کا ختنہ کی ،اور حشفہ کٹ گیا،جس کی وجہ سے بچہ مر گیا تو ختنہ کرنے والے پر نصف دیت یعنی پانچ سو دینار واجب ہوں گے، اور اگر بچہ بچ گیا تو پوری دیت واجب ہوگی۔ وجہ یہ ہے کہ اگر بچہ مرگیا تو موت کا سبب دو فعل ہیں: ایک فعل یعنی ختنہ کی تو اجازت تھی،مگردوسرے فعل یعنی حشفہ کاٹ دینے کی اجازت نہیں تھی،اس لئے نصف دیت واجب ہوگئی، اور اگر بچہ نہیں مرا تو فعلِ ماذون فیہ (ختنہ) کا اعتبار نہیں ہوگا، گویا وہ ہوا ہی نہیں ،اور حشفہ کا کاٹ دینا جو فعلِ غیر ماذون فیہ ہے،کا اعتبار کرکے ضمانِ حشفہ یعنی پوری دیت واجب ہوگی۔مسئلہ ثانیہ : بوقتِ ولادت بچہ نے سر باہر نکالا اور کسی آ دمی نے اس کا کان کاٹ دیا، اوربچہ مرا نہیں بلکہ زندہ رہا تو کان کاٹنے والے پر پانچ سو دینار واجب ہوںگے ،اور اگر وہی شخص بجائے کان کاٹنے کے سرکاٹ دے تو اس پر ایک ایسا غلام یا باندی واجب ہوگی، جس کی قیمت پچاس دینار کے برابر ہو۔مسئلہ ثالثہ : جب کنویں میں بغیر پھولا پھٹا چوہا گر جائے، تو بیس ڈول نکالنا واجب ہے ،اور اگرپھولے پھٹے چوہے کی صرف دُم گرجائے تو پورا کنواں خالی کرنا واجب ہے۔ (شرح الحموي علی الأشباہ:۱/۴۰۴)قاعدہ(۲۸۵): {لا یَصِحُّ تَوْکِیلُ مَجْہُوْلٍ} ترجمہ: شخصِ مجہول کو وکیل بنانا درست نہیں ہے۔ (الأشباہ والنظائر، قواعد الفقہ:ص۱۱۱، القاعدۃ:۲۷۴)مثال: اگر قرض خواہ مقروض سے یوں کہے :’’ اگر تیرے پاس کوئی شخص فلاں علامت لے کر آئے، یا تیری انگشت پکڑلے ،یا تجھ سے اس طرح کہے کہ تو میرا مال جو تیرے ذمہ لازم ہے، اس کو دیدے‘‘، تو یہ توکیل درست نہیں ہے، کیوںکہ وکیل مجہول ہے، اور مقروض اس طرح کے وکیل کوقرض کا مال دیدینے سے بریٔ الذمہ نہیں ہوگا۔ (الأشباہ :ص۳۷۰)