الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
دور ثالث : تابعین و تبع تابعین کا زمانہ، اس مرحلہ میں بہت ساری شخصیات اس منصب فقہی پر جلوہ افروز ہیں،جن میں مدینہ منورہ کے اندر سات جلیل القدر تابعین فقہائِ وقت نہایت مشہور ہوئے؛ جن کے اسماء کو کسی نے جمع کرتے ہوئے کیا ہی خوب کہا ہے: ؎ ألا کل من لا یقتدی بائمۃ فقسمتہٗ ضیزی عن الحق خارجۃ فخذہم عبید اللہ ، عروۃ وقاسم سعید ، أبوبکر، سلیمان ، وخارجۃ مدینہ کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی کبار فقہاء ائمۂ مجتہدین موجود تھے، جن میں ائمۂ اربعہ سیدنا امام ابوحنیفہ، سیدنا امام مالک، سیدنا امام شافعی، سیدنا امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کی ذوات قدسیہ سربراہ اور سرخیل کی حیثیت کی حامل ہیں؛ جن کے دم سے فقہ حنفی، پھر مالکی، پھر شافعی، پھر حنبلی وجود میں آئی اور سب سے اول امام الائمہ سراج الامۃ کشف الغمہ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ نے فقہ اسلامی کو فن کی حیثیت سے مدون و مرتب کیا۔قدم بسوئے قواعد سازی : پھر ا ن فقہی احکام و جزئیات پر دسترس حاصل کرنے کے لئے مستقل ایک کوشش شروع ہوئی، جس کے نتیجہ میں کچھ ایسے قواعد و اصول تیار کئے گئے؛ جن سے مسائل متحد النوع و مسائل مختلف النوع کی گرفت آسان ہوگئی ۔ ان قواعد میں بعض تو وہ ہیں، جن کا ثبوت قرون مشہود لہا بالخیر میں بعینہٖ ان ہی الفاظ کیساتھ ملتا ہے؛ مثلاً ’’لا ضرر و لا ضرار‘‘، ’’ العجماء جرحہا جُبارٌ ‘‘، ’’الخراج بالضمان‘‘یہ تینوں جملے قواعد فقہیہ ہونے کے ساتھ ساتھ الفاظ حدیث بھی ہیں یا جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ایک قانون سنایا: ’’من استعمل فاجراً وہو یعلم فہو مثلہ‘‘ یا جیسے انہوں نے فرمایا :’’ذروا الربا والریبۃ ‘‘۔ اور بعض وہ قواعد ہیں، جو فقہاء کی تعبیرات ہیں؛ مثلاً :’’ الضرر یزال‘‘ ، ’’ الیقین لا یزول بالشک‘‘ ۔…یہاں یہ بات کبھی فراموش نہیں ہونی چاہئے کہ قواعد جتنے ہیں، سارے کے سارے قرآن و سنت سے ماخوذ ہیں، اگر چہ ان قواعد کی تعبیرات فقہاء کرام کی تجویز کردہ ہوئیں، مگر وہ نصوص قرآنیہ اور نصوص نبویہ کی روح اور ان ہی کا مختصر و جامع لباب ہیں، مثلاً دیکھئے: ’’ الضرورات تبیح