الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قواعد فقہیہ کا مقام قواعد فقہ کو علم فقہ میں ایک بلندو بالا مقام حاصل ہے، جو شخص جس قدر قواعد کا احاطہ کرے گا اسی قدر اس کی عظمت اور شرافت میں اضافہ ہوگا، قواعد سے رونقِ فقہ نہ صرف بڑھے گی، بلکہ علم فقہ کی معرفت حاصل ہوگی، اور فتویٰ دینے واحکام بتلانے کی راہیں منکشف ہوں گی۔ اگر کسی شخص کے سامنے محض فقہ کی جزئیات ہوں اور قواعد نہ ہوں اور انہیں جزئیات پرمسائل کا استنباط و تخریج کرے تو مسائل و فروع باہم مختلف ایک دوسرے کی نقیض بن کر سامنے آئیں گے، نتیجۃً وہ تنگ دل و مایوس ہوگا اور بے شمار و بے انتہاء جزئیات کو یاد کرنے بیٹھ جائے گا، جب کہ جزئیات اتنی ہیں کہ اگر پوری عمر بھی اس کے یاد کرنے میں لگادی جائے تو عمر ختم ہو جائے گی، مگر تمام جزئیات یاد نہ ہو سکیں گی، اس کے برخلاف قواعد محدود ہیں ،اگر کوئی شخص اس کے حفظ و ضبط کاا ہتمام کرلیں تو وہ اکثر جزئیات کے یاد کرنے سے بے نیاز ہو جائے گا، کیوںکہ جزئیات قواعد میں مندرج ہیں۔قواعد فقہیہ کے معنی اور اس کی تعریف : قواعد، قاعدۃٌکی جمع ہے ،اور قاعدہ کے معنیٰ بنیاد کے ہے، ارشاد ربانی ہے: { وَإذْ یَرْفَعُ إِبْرَاہِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمَاعِیْلُ رَبَّناَ تَقَبَّلْ مِنَّا إنَّکَ أنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ‘‘۔ ’’اور جب کہ اٹھا رہے تھے ابراہیم علیہ السلام دیواریں خانہ کعبہ کی، اور اسماعیل بھی، اے ہمارے پروردگار، ہم سے قبول فرمائیے ، بلاشبہ آپ خوب سننے والے اور جاننے والے ہیں‘‘۔ (سورۃ البقرۃ:۱۲۷) قواعد فقہ کو ، قواعد اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ بناء فقہ کی بنیاد ہیں۔ قاعدہ کے معنی ٔ لغوی: قاعدہ کے ایک معنی ضابطہ ہے، اور ضابطہ اس امر کلی کو کہا جاتا ہے، جو جزئیات پر منطبق ہو، مثلاً یہ ضابطہ: ’’ کُلُّ أذُوْنٍ وَلُوْدٌ وَکُلُّ صَمُوْخٍ بُیُوْضٌ‘‘۔ کہ جس حیوان کا خارجی کان ہو، اس کی نسل بطریق ولادت بڑھتی ہے، اور جس کا خارجی کان نہ ہو بلکہ محض کان کا سوراخ ہو، اس کی نسل بطریق انڈا بڑھتی ہے جیسے پرندہ، اور مچھلی وغیرہ۔ (المعجم الوسیط:۲/۵۵۵)