الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قاعدہ(۱۶۹): {اَلشَّہَادَۃُ عَلَی النَّفْيِ لا تُقْبَلُ} ترجمہ: نفی پر شہادت نہیں قبول کی جائے گی۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۰۰، باب ما یصدق فیہ الرجل ، قواعد الفقہ:ص۸۶، القاعدۃ:۱۵۸)مثال: جب شاہد یہ کہیں کہ ہم نے جو کچھ سنا، اس کے علاوہ مشہودفیہ (جس کے حق میں گواہی دی جائے ) نے کچھ نہیں کہا، تو ان کا یہ قول قابلِ قبول نہ ہوگا، کیوںکہ یہ شہادت علی النفی ہے، جو قبول نہیں کی جاتی۔قاعدہ(۱۷۰): {اَلشَّيْئُ إذَا ثَبَتَ ثَبَتَ بِجَمِیْعِ لَوَازِمِہٖ} ترجمہ: جب کوئی چیز ثابت ہوگی تو اپنے جمیع لوازم کے ساتھ ثابت ہوگی۔ (ترتیب اللآلی: ۲/۷۷۸، جمہرۃ: ۲/۸۵۵، رقم:۱۶۷۳، درر الحکام :۱/ المادۃ:۴۹، القواعد الکلیۃ:۳۰۶، شرح المجلۃ لسلیم رسم باز: ص )مثال۱: جان بچانے کے لیے مجبوری واضطرار کی صورت میں انسان کو خون استعمال کرلینے کی اور اس کا انجکش لگا لینے کی، تداوی بالمحرم کے قاعدے کے مطابق شرعاً گنجائش ہے ، جب ضرورۃً اپنا خون کسی کو عطیہ کرنے کی رخصت وگنجائش ہے ، اور کبھی یہ ضرورتیں اچانک بھی پید ا ہوجاتی ہیں ، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہیں ، جیسے فسادات ، ٹرین حادثات وغیرہ، جن میں بسا اوقات بہت زیادہ افراد زخمی ہوجاتے ہیں ، اور ان کی جان بچانے کے لیے ان سب کو خون چڑھا نا ضروری ہوجاتا ہے ، اور پھر اس میں بھی مریض کے خون کا گروپ (Blud gruop) اور جو خون چڑھا یا جاتا ہے اس خون کا گروپ بالکل یکسا ں ہونا ضروری ہوتا ہے ، ورنہ بجائے نفع کے نقصان کا اندیشہ ہوجاتا ہے ، اس لیے اچانک پیش آمدہ ضروریات کے لیے ہر گروپ کا خون فراہم رکھنا بھی ضروری ہوجاتا ہے ، اور مقدار کی تعیین وتحدید نا معلوم ہو نے کی وجہ سے کا فی مقدار میں محفوظ رکھنا ضروری ہوگا ، اس لیے فراہمی کے اور محفوظ رکھنے کے جو مناسب طریقے ہوں گے، شرعاً ان کی بھی رخصت ہوگی، کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے :’’ الشيء