الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
کہ پیش کے ساتھ اسم ہے اور زبر کے ساتھ مصدر … یہ لفظ نقصان کے معنی میں ہے اور نفع کی ضد ہے ، اس مادہ سے نکلنے والے تمام ہی الفاظ میں یہ معنی ملحوظ ہیں ،’’ ضریر ‘‘کے معنی اپاہج کے ہیں،’’ ضراء‘‘ کا لفظ قرآن میں ’’سراء‘‘ کے مقابلہ میں استعمال کیا گیا ہے ، یہاں ’’ضراء ‘‘ سے جانی ومالی نقصان مراد ہے ، اس لیے ’’ضر‘‘ کے معنی دبلاپے کے بھی کیے گئے ہیں ، کہ یہ بھی نقصِ جسمانی ہی ہے، پھر ابو الدقیس نے ’’ضرر‘‘ کا معنی خوب بیان کیا ہے کہ ’’کل ما کان من سوء حال وفقر أو شدۃ في بدن‘‘ نقصان ، تنگی اور مشقت انسان کو ہمیشہ حاجت مند بناتی ہے، اب بات اسی مناسبت سے تنگی ومشقت سے انسان کے احتیاج تک پہونچی اور ضرورت کے معنی ہی حاجت کے ٹھہرے ، جس کی جمع ہے ’’ضرورات‘‘ کہ ’’ الضـرورۃ ، الحاجۃ وتجمع علی الضرورات ‘‘۔ضرورت کی اصطلاحی تعریف : علامہ ابو اسحاق شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :…’’ فأما الضروریۃ فمعناہا أنہا لا بد منہا في قیام مصالح الدین والدنیا بحیث إذا فقدت لم تجر مصالح الدنیا علی استقامتہ بل علی فساد وتہارج وفوت حیاۃ وفي الأخری فوت النجاۃ والنعیم والرجوع بالخسران المبین‘‘۔…ضروری احکا م سے مراد وہ احکام ہیں جو دین ودنیا کے مصالح کے بقاء کے لیے ناگزیر ہوں، اس طورپر کہ اگر وہ مفقود ہوجائیں تو دنیا کی مصلحتیں صحیح طریقے پر قائم نہ رہ سکیں ، بلکہ فسادوبگاڑ اور زندگی سے محرومی کا باعث بن جائیں ، یا ان کے فقدان سے نجات اور آخرت کی نعمت سے محرومی اور کھلا ہوا نقصان وخسران اٹھانے کا باعث ہو۔ (الموافقات للشاطبي:۲/۲۲۴) ضرورت کی اس تعریف اور ضرورت کی وہ تعریف جو اضطرار کے ہم معنی ہے ، کے درمیان دو اساسی فرق ہیں ، ایک یہ ہے کہ دوسرے معنی کے لحاظ سے ضرورت محض ہلاکتِ نفس سے حفاظت کے لیے کسی فعل کے ارتکاب پر مجبور ہوجانے کا نام ہے ، اور وہ بھی اس طورپر کہ نوبت اضطرار کے درجہ کوپہنچ جائے، اس طرح ضرورت کا دائرہ بہت محدود ہوجاتا ہے ۔