الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال۲: ایک شخص رمضان شریف میں اس قد ربیمار ہوا کہ اس کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا، تو جب تک وہ اس مرض سے شفایاب نہیںہوجاتا اس کے لیے افطار کی اجازت ہوگی، لیکن جیسے ہی وہ صحت یاب ہوجائے تو اس کو رمضان کے روزے رکھنے ہوں گے، کیوں کہ مرض اداء صوم کے لیے مانع تھا ، جب وہ زائل ہوگیا تو ممنوع یعنی اداء صوم عود کر آئے گا۔ (القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۲۲۳)مثال۳: اگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی اور اس میں کوئی عیبِ حادث حاصل ہوا ، اس کے بعد وہ عیبِ قدیم (جو بائع کے پاس پیدا ہواتھا) پربھی مطلع ہوا، تو اس کے لیے مبیع کو واپس کرنا درست نہیں ہے، بلکہ وہ بائع سے صرف نقصانِ قیمت واپس لے گا، البتہ جب یہ عیب حادث ختم ہوجائے اور مشتری بائع کو نقصانِ ثمن لوٹادے ، تو اسے عیبِ قدیم کے سبب ردِ مبیع کا حق حاصل ہوگا۔ إذا اشتری شخص شیئًا وبعد حصول عیب حادث في ذلک الشيء اطلع علی عیب قدیم فیہ فحینئذ لا یجوز للمشتری رد المبیع بل لہ الرجوع علی البائع بنقصان الثمن أي فرق الثمن فقط ، فإذا زال ذلک العیب الحادث المانع من رد المبیع فللمشتري بعد أن یعید للبائع نقصان الثمن رد المبیع بالعیب القدیم۔ (درر الحکام:۱/۳۹، المادۃ:۲۴)فائدہ: عدمِ بلوغ مانع ہے اور قبولِ ادائِ شہادت ممنوع ہے۔قاعدہ(۲۱): {إذَا سَقَطَ الْأصْلُ سَقَطَ الْفَرْعُ} ترجمہ: جب اصل ساقط ہو تو فرع بھی ساقط ہوگی۔ (درر الحکام :۱/۵۳، رقم المادۃ:۵۰، ترتیب اللآلي في سلک الأمالي :ص۱۱۷۶، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ: ۲/۶۱۸، رقم القاعدۃ:۱۳۳، القواعد الکلیۃ والضوابط الفقہیۃ:ص۳۰۷)مثال: اصیل بری ہو تو کفیل بھی بری ہوتا ہے، لیکن اس کے برعکس نہیں ہوسکتا کہ کفیل بری ہو تو اصیل بھی بری ہوجائے۔ ہاں یہ بات ہے کہ کبھی کبھی فرع ثابت ہوتی ہے، اصل کے ثابت ہوئے بغیر بھی؛ مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ زید کے عمرو کے اوپر ہزار درہم ہیں اور میں عمرو کا ضامن ہوں، عمرو نے