الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۴۵): {اَلإقْرَارُ بَعْدَ الإنْکَارِ صَحِیْحٌ} ترجمہ: اقرار بعد از انکار معتبر ہے۔ (شرح السیرالکبیر:۵/۴ ، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۶۱، القاعدۃ:۴۲)مثال: کسی آدمی نے دعوی کیا کہ فلاں شخص میرا غلام ہے، اولاً اس فلاں شخص نے اس کے غلام ہونے کا انکار کیا، بعدہ‘ اس کی تصدیق کی کہ ہاں میں اس کا غلام ہوں تو وہ مدعی کا غلام ہوگا، بشرطیکہ مجہول الحال ہو، یعنی معروف بالحریۃ نہ ہو۔قاعدہ(۴۶):{إقْرَارُ الْمُقِرِّ إنَّمَا یَثْبُتُ فِيْ حَقِّہٖ خَاصَّۃً} ترجمہ: مقر کا اقرار خصوصاً اپنے حق میں تو ثابت ہوہی جاتا ہے۔ (شرح السیرالکبیر:۵/۴، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۶۱، القاعدۃ:۴۳)مثال۱: جب مسلمانوں نے مشرکین سے اس بات پر صلح کی کہ وہ ہر سال سو نفر (افراد) مسلمانوں کو ادا کریں گے، پھر مشرکین سو نفر مسلمانوں کے پاس لے آئے اورکہاکہ یہ آزاد ہیں، ہم ان پر غالب آئے ،پھر کہا :نہیں ہم نے جھوٹ کہا تھا، یہ غلام ہی ہیں اور ان سو لوگوں نے مشرکین کی اس بات کی تصدیق کی تو مسلمانوں کے لئے جائز ہوگا کہ وہ ان سو لوگوں کو لے لیں، کیوںکہ انہوں نے اپنی رقیت (غلام ہونا) کا اقرار کیا اور آدمی کا اپنا اقرار اپنے حق میں خصوصاً ثابت ہوہی جاتا ہے۔مثال۲: کسی مجہول النسب شخص نے اپنے غلام کو آزاد کیا، پھر وہ اپنے بارے میں کسی اورکے غلام ہونے کا اقرار کرے، اور مقر لہ اس کی تصدیق بھی کردے، تو اس کا یہ اقرار اپنے حق میں تو صحیح ہے ، مگر ابطالِ عتق میں نہیں۔ (الدر المختار علی التنویر مع الشامي:۲/۲۱۲،۲۱۳)قاعدہ(۴۷): {إقْرَارُ الْمُکْرَہِ بَاطِلٌ} ترجمہ: مجبور کردہ انسان کا اقرار باطل ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۱۰۸، باب العین یصیبہ المسلمون ، قواعد الفقہ:ص۶۱، القاعدۃ:۴۴)