الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال۱: مجنون وصبی غیر ممیز کا بیع وشراء کرنا ،یا مردار اور خون پر عقد بیع کرنا ، بیعِ باطل ہے ، جو مفیدِ ملکِ تصرف نہیں ہوگی ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ: ۳/۲۳۶)مثال۲: اگرمشتری بیعِ باطل میں بائع کی اجازت کے بغیر ،مبیع پرقبضہ کرلے، تووہ غاصب کہلائے گا ۔ (درر الحکام: ۱/۱۰۸)فائدہ: اگر مشتری بیع باطل میں بائع کی اجازت سے مبیع پر قبضہ کربھی لے، تووہ اس مبیع کا مالک نہیں ہوگا، بلکہ وہ مبیع اس کے پاس امانت ہوگی۔ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: ۱/۱۰۸، المادۃ: ۱۱۰،الجوہرۃ النیرۃ: ۱/۴۶۲)قاعدہ(۶۵): {بَرَائَ ۃُ الأصِیْلِ تُوْجِبُ بَرَائَ ۃَ الْکَفِیْلِ} ترجمہ: اصل کی برأت کفیل کی برأت کو مستلزم ہے۔ (جمہرۃ: ۲/۶۷۰، الہدایۃ: ۲/۱۱۸، کتاب الکفالۃ، حاشیۃ القدوری:ص۱۳۰، رقم الحاشیۃ:۱)مثال: اگر مدیون دائن کے قرض کو ادا کردے، یا دائن اسے اپنے دین سے بری کردے ، تو کفیل برئ الذمہ ہوگا، کیوں کہ کفیل اسی دین کا ضامن تھا جومدیون ( اصیل) کے ذمہ میں تھا، جب مدیون نے اپنے ما فی الذمہ کو ادا کردیا ، یا وہ اس سے بری کردیا گیا ، تو اس کے ذمہ میں کوئی شی ٔ باقی ہی نہ رہی ، جو کفیل کی طرف لوٹے۔قاعدہ(۶۶): {حَالَۃُ الْبَقَائِ أَسْہَلُ مِنْ حَالَۃِ الْاِبْتِدَائِ} ترجمہ: حالتِ بقا،حالتِ ابتدا سے آسان ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۳/۵۹، باب دخول المسلمین دار الحرب بالخیل ومن یسہم لہ منہم في الغصب والإجارۃ والعاریۃ والحبس، درر الحکام :۱/۵۶، المادۃ:۵۶، قواعد الفقہ:ص۶۵، القاعدۃ:۶۱، ترتیب اللآلي:ص۴۲۹ ، شرح القواعد:ص۲۸۷، جمہرۃ القواعد: القاعدۃ:۴۸۴ ، الأشباہ لإبن نجیم :ص۳۲۳)مثال: فاسق انسان کو قاضی بنانا درست نہیں ہے، لیکن اگر کسی کو اس کے صلاح وتقوی کے پیش نظرقاضی بنایا گیا اور بعدمیں وہ فاسق ہوگیا تو معزول نہیں ہوگا، کیوںکہ بقا، ابتداسے آسان ہے۔ (الأشباہ:ص۳۲۳)