الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
قاعدہ(۶۲) {’’ أَيٌّ‘‘ کَلِمَۃُ جَمْعٍ تَتَنَاوَلُ کَلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُخَاطَبِیْنَ عَلٰی سَبِیْلِ الْانْفِرَادِ} ترجمہ: ’’ أي‘‘ ایسا کلمہ ہے، جو مخاطبین میں سے ہر ایک کو بطور انفراد شامل ہوتا ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۳/۸، باب من النفل یفضل فیہ بعضہم علی بعض بالتقدم ، قواعد الفقہ:ص۶۴، القاعدۃ:۵۹)مثال۱: امیرا لمومنین نے اپنی افواج کو مخاطب کرکے یوں کہا کہ :’’تم میں سے جو شخص اس قلعہ میں پہلے داخل ہوگا، اسے ایک ہزار درہم ملیںگے‘‘۔ تو اس اعلان کے بعد جتنے لوگ داخل ہوںگے، ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک ہزار درہم ملیں گے، کیوں کہ کلمہ’’ ایؔ‘‘ مخاطبین میں سے ہر کو بطور انفراد شامل ہوتاہے اور ہر داخل ہونے والا دوسرے سے قطع نظر کرکے پہلا ہے بمنزلۂ’’ مَنْ ‘‘۔مثال۲: کسی استاذ نے اپنے طلباء سے یہ کہا کہ:’ ’مسابقہ میں جس طالب علم کا پہلا نمبر آئے گا میں اسے ہزار روپئے دوں گا‘‘، اب دو طلباء نے پہلے نمبر پر کامیابی حاصل کی تو دونوں ایک ایک ہزا ر روپئے کے مستحق ہونگے۔قاعدہ (۶۳): {اَلأیْمَانُ مَبْنِیَِّۃٌ عَلَی الألْفَاظِ} ترجمہ: ایمان (قسمیں) الفاظ پر مبنی ہوتی ہیں۔ (الأشباہ والنظائر:ص۷۲، ترتیب اللآلي في سلک الأمالي:ص۴۱۳ ، قواعد الفقہ:ص۶۵، القاعدۃ:۶۰، رد المحتار :۵/۴۲۲)مثال: اگرکسی آدمی نے یہ قسم کھائی کہ میں اپنے لئے ایک پیسہ کی چیز نہیں خریدوںگا ،اب اس قسم کے بعد وہ اپنے لئے سوروپے کی کوئی چیز خریدلے توحانث نہیں ہوگا، کیوںکہ قسمیں الفاظ پر مبنی ہوتی ہیں۔ (الأشباہ)قاعدہ(۶۴): {اَلْبَاطِلُ لا یُفِیْدُ مِلْکَ التَّصَرُّفِ} ترجمہ: عقدِ باطل مفیدِ ملکِ تصرف نہیں ہوتا ۔ (جمہرۃ: ۲/۶۶۸، رقم: ۴۶۰، الجوہرۃ النیرۃ:۱/۴۶۶، ہدایہ: / ، باب بیع الفاسد)