الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال۲: امیرا لمسلمین نے یوں کہا :جس شخص کا تیر اس سبز جبہ کو جا لگے وہ اسی کا ہے، پھر ایک شخص کا تیر اس کو جالگا اور وہ جبہ کے بجائے کھال نکلی تو وہ اسی کی ہوگی، کیوںکہ امیرنے استحقاق کی بنیاد، تعیین بالاشارہ پر رکھی ہے، نہ کہ اسم اور نسبت پر ۔قاعدہ(۲۰۹): {اَلْعِوَضُ حُکْمُہٗ حُکْمُ الْمُعَوَّضِ} ترجمہ: جو حکم معوض کا ہے، وہی عوض کا ہوگا۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۷۸، باب أسر العبد وغیرہ ثم یرجع إلی مولاہ أو لا یرجع ، قواعد الفقہ:ص۹۳، القاعدۃ:۱۹۲)مثال: اگر معوض جائز ہے تو عوض بھی جائز ہوگا، اگر معوض حرام ہے تو عوض بھی حرام ہوگا، جیسے نکاح جائز ومباح ہے تو مہر بھی جائز ہوگا، اور زنا حرام ہے تو اس کاعوض(اجرت) بھی حرام ہوگا۔قاعدہ(۲۱۰): {اَلْغَرَرُ لا یَضُرُّ فِيْ التَّبَرُّعَاتِ} ترجمہ: تبرعات واحسانات میں غرر مضر نہیں ہے۔ (جمہرۃ:۲/۷۹۵، رقم:۱۲۸۰)مثال۱: اگر کوئی شخص اپنے تالاب میں موجود مچھلیاں کسی کو ہبہ کردے ، تو یہ جائز ہے، اب موہوب لہ کے لیے ان مچھلیوں کو پکڑنا درست ہے، او رنہ پکڑ پائے تو واہب پرکوئی ضمان لازم نہیں ہوگا۔مثال۲: عبد آبق کو مالک ہبہ کردے ،تو موہوب لہ کے لیے جائز ہے جہاں پائے اس کو پکڑلے، اور نہ پکڑ سکے تو بھی واہب پر کوئی ضمان نہیں، کیوں کہ موہوب لہ کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہے ۔ (جمہرۃ القواعد:۱/۳۱۳)قاعدہ(۲۱۱): {اَلْغُرْمُ بِالْغُنْمِ} ترجمہ : تاوان نفع کے مطابق ہوتا ہے۔(ذمہ داری حقِ استفادہ کی وجہ سے عائد ہوتی ہے) (درر الحکام :۱/۹۰، المادۃ :۸۷ ، القواعد الفقہیۃ :ص۳۰۵ ، ۳۷۴ ، ترتیب اللآلي :ص۸۷۱ ، شرح القواعد: ص۴۳۷ ، قواعد الفقہ:ص۹۴، القاعدۃ:۱۹۵، شرح السیر الکبیر:۱/۲۲۶ ، قبیل باب وما جاء في الغلول)مثال: چند لوگوںنے مل کرکوئی کاروبار شروع کیا ،اور اس میں نقصان ہوا،تو یہ نقصان ہر شریک پر اس کے حصۂ نفع کے مطابق لازم ہوگا، یعنی جس کا حصہ نفع پچاس فیصد(50%) ہے، تو اس کا