الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ترکۂ میت میں ایک تہائی تک اس کی وصیت جاری ہوتی ہے، اس سے زائد میں نہیں، کیوں کہ اس سے زائد ورثاء کا حق ہے، لیکن اگر ورثاء نے اس مقدارِ زائد میںنفاذِ وصیت کی اجازت دے دی تو ان کا حق ساقط ہوگیا اور شیٔ ساقط لوٹ کر نہیں آتی، اس لئے انہیں اپنی اس اجازت سے حقِ رجوع حاصل نہیں ہوگا ۔قاعدہ(۱۵۹): {اَلسَّکْرَانُ مِنْ مُحَرَّمٍ کَالصَّاحِيْ} ترجمہ: حرام کردہ شی ٔسے مدہوش ہونے والا،باہوش کی مانند ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۴/۱۴۲، باب من یکرہ قتلہ من أہل الحرب ومن لا یکرہ ، قواعد الفقہ:ص۸۳، القاعدۃ:۱۴۵، شرح الأشباہ:۲/۱۸، ہدایہ:۲/۵۲۹، کتاب الحدود ، باب حد الشرب)مثال: حرام شی ٔ سے نشہ میں مست انسان کے تمام اقوال ایسے ہی صحیح ہیں جیسے ہوش مند انسان کے ،اسی لیے سکران کی طلاق ، اعتاق ، بیع وشراء اور اقرار وغیرہ سب درست ہیں۔ (المحیط البرہاني في الفقہ النعماني: ۳/۳۴۸، کتاب الطلاق ، الفصل الثالث في بیان من یقع طلاق ومن لا یقع طلاقہ ، مکتبۃ دار احیاء التراث العربی بیروت)فائدہ: نشہ کی حد میں علماء کے اقوال مختلف ہیں : حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نشہ کی حد یہ ہے کہ آدمی اس حد تک نشہ میں ہو کہ وہ بات کو نہ سمجھ سکے، نہ قلیل نہ کثیر، اور نہ وہ مرد وعورت کے مابین تمیز کرسکے،اور حضرات صاحبین ؒ فرماتے ہیں کہ عرف میں سکران اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بیہودہ گوئی کرے، اور اس کا کلام مختلط ہو، طہارت ، اَیمان اور حدود میں علماء نے سکر کی اسی تعریف کو ترجیح دی ۔ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں کہ محقق ابن ہمامؒ نے اپنے مقالہ ’’التحریر‘‘ میں یہ صراحت فرمائی کہ سکر کے سلسلہ میں امام صاحب سے جو تعریف منقول ہے اس کا اعتبار صرف وجوبِ حد میں ہوگا، کیوں کہ اگر ارض وسماء کے مابین تمیز پر قادر ہے، تو اس کے سکر میں ایک قسم کا نقصان ہے ، جس کی وجہ سے حد واجب نہیں ہوگی، البتہ وجوبِ حد کے علاوہ دیگر احکام میں امام صاحب کے نزدیک اسی سکر کا اعتبار ہوگا جوصاحبین کی تعریف میں گزر چکا۔