الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
نقصان بھی پچاس فیصد(50%) ،اور جس کا تیس فیصد (30%) ہے تو اس کا نقصان بھی تیس فیصد (30%) ،اور جس کابیس فیصد(20%) ہے تو اس کانقصان بھی بیس فیصد (20%)ہوگا۔ زید،بکر اور عمرو نے ایک ہزار روپے جمع کرکے ایک کاروبار شروع کیا،اس میں زید کے پانچ سو، بکر کے تین سو اور عمرو کے دو سو روپے ہیں،اور حصۂ نفع بھی ترتیب وار پچاس فیصد (50%) تیس فیصد (30%) اور بیس فیصد(20%) ہے۔ یعنی سوروپے منافع میں زید کے پچاس روپے ، بکر کے تیس روپے اور عمرو کے بیس روپے ہیں، ٹھیک اسی طرح نقصان بھی بقدر حصۂ نفع ان تینوں پر لازم ہوگا۔فائدہ: حضرت الاستاذ(قاضی مجاہد الاسلام صاحبؒ) نے اسی قاعدہ سے استشہاداً فرمایا کہ : ’’مرد پر حقِ زوجیت سے استفادہ کی بناء پر اس کی بیوی کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘‘۔ (مباحث فقہیہ:ص۲۵۹)قاعدہ(۲۱۲): {اَلْغَصَبُ لَیْسَ بِمُوْجِبٍ لِلْمِلْکِ بِنَفْسِہٖ} ترجمہ: غصب بنفسہ موجبِ ملک نہیں ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۹، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۹۴، القاعدۃ:۱۹۶)مثال: اگر غاصب نے مغصوب منہ سے کسی چیز کو غصب کیا تو یہ غصب کرنا اس کے لئے شیٔ مغصوب میں ملک کو ثابت نہیں کرے گا، بلکہ اس پر واجب ہے کہ عینِ مغصوب، مغصوب منہ کو واپس کردے۔ ہاں! جب غاصب نے شی ٔمغصوب کو ضائع کردیا ،یا وہ خود ضائع ہوگئی تو اس پر اس کا تاوان واجب ہوگا،اور وہ وقتِ غصب سے ہی اس کا مالک شمار ہوگا، اس صورت میں غصب کو سببِ ملک قرار دینا ضرورتاً ثابت ہے، تاکہ دونوں بدل(ضمان اور شی ٔ مغصوب) کا اجتماع ملکِ واحد میں نہ ہو۔قاعدہ(۲۱۳): {غَیْرُ الْجَائِزِ لا یَحْتَمِلُ الْجَوَازَ بِقَضَائِ الْقَاضِي} ترجمہ: امر ناجائز قضاء قاضی کے سبب جواز کا احتمال نہیں رکھتا ہے۔ (جمہرۃ القواعد: ۲/۷۹۶، رقم: ۱۱۹۰)