الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
تم اس غلام کو واپس لے لو اور اس کی قیمت خریدارکو لوٹا دو، بائع نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس نے میرے غلام سے منافع حاصل کیا تو اس کاکیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ الخراج بالضمان‘‘ منافعِ عبد ضمان کے سبب ہیں،یعنی خریدارنے جو منافع حاصل کیے، اس کا سبب یہ رہا کہ یہ غلام اس کی ضمانت میںتھا، اگر ہلاک ہوجاتا تو اس کے مال میں سے ہی ہلاک ہوتا، ٹھیک اسی طرح اس کی ضمانت میں رہتے ہوئے اس نے جو منافع حاصل کئے، وہ اسی ضمانت کے سبب حاصل کئے ہیں؛ لہٰذا ان منافع کو حاصل کرنے کے سبب اس پر کوئی شیٔ واجب نہیں ہوگی۔ (شرح الأشباہ والنظائر:ص۳۷۸)قاعدہ(۱۴۱): {اَلْخَصْمُ إذَا سَکَتَ عَنِ الْجَوَابِ فِي مَجْلِسِ الْقَاضيْ جَعَلَہٗ مُنْکِرًا وَإذَا سَکَتَ عَنِ الْیَمِیْنِ بَعْدَمَا طُلِبَ مِنْہُ جَعَلَہٗ نَاکِلاً } ترجمہ: جب قاضی کی مجلس میں مدِمقابل ،جواب سے خاموش رہے تو قاضی اسے منکرِ حق قرار دے گا، اور جب طلبِ یمین کے بعد خاموش رہے تو اسے قسم سے باز رہنے والا قرار دے گا۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۹۷، باب أہل الحصن یؤمنہ الرجل من المسلمین علی جعل أو غیر جعل ، قواعد الفقہ:ص۸۰، القاعدۃ:۱۳۰)مثال: جب مدعی کے پاس اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے گواہ موجود نہ ہوں اور قاضی کے مدعیٰ علیہ سے سوال کرنے پر وہ خاموش رہے، تو اُس کی اِس خاموشی کو انکارِ حق پر محمول کیا جائے گا، اور اگر قاضی اس سے یمین طلب کرے اور وہ خاموش رہے تو اس کو قسم سے باز رہنے والا قرار دے کر اس کے خلاف فیصلہ کیا جائے گا ،یعنی مدعی کے حق میں فیصلہ ہوگا،قاضی تین مرتبہ مدعیٰ علیہ سے قسم کو طلب کرے اور ہر مرتبہ یہ کہے کہ اگر اس نے قسم نہ کھائی تو وہ اس کے خلاف فیصلہ کرے گا، پھر تین مرتبہ طلبِ یمین کے بعد اس کے خلاف فیصلہ کردے ۔ (شرح السیر:۱/۳۳۰)قاعدہ(۱۴۲): {اَلْخَطَأُ فِیْمَا لا یَشْتَرِطُ التَّعْیِیْنُ لا یَضُرُّ} ترجمہ: جن چیزوں میں تعیین شرط نہیں ، ان میں خطا مضر نہیں ۔ (الأشباہ والنظائر للسیوطي :۲/۴۵ ، قواعد الفقہ:ص۸۰، القاعدۃ:۱۳۱)