الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ترجمہ: اصل یہ ہے کہ جب کوئی حدیث کسی صحابیِ ٔرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے اصحاب کے قول کے مخالف وارد ہو، اگر وہ صحیح نہ ہو تو اس کی عدم صحت ہی اس کے جواب میں ہمارے لئے کافی ہوگی، اور اگر وہ اپنے محل ورود میں صحیح ہو تو اس کی اقسام کا ذکر پہلے گذر چکا، مگر سب سے اچھا اور ابعد عن الشبہ طریقہ یہی ہے کہ جب حدیثِ صحابی مقامِ غیر اجماع میں وارد ہو تو اسے تاویل پر یا ان صحابی اور ان جیسے دوسرے صحابی کے مابین معارضہ پر محمول کیا جاوے۔مثال: اختلافِ صحابی اس باب میں کہ زوجِ ثانی سے نکاح، زوجِ اول کی ایک یا دو طلاق کو ختم کرتا ہے یا نہیں ؟نیز اختلاف صحابی در مسئلۂ تکبیراتِ ایام تشریق (تاویل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے)۔(۱۲){الأصْلُ أَنَّ السَائِلَ إذَا سَألَ سُؤَالًا یَنْبَغِي لِلْمَسْئُوِلِ أنْ لا یُجِیْبَ عَلَی الإطْلَاقِ وَالإرْسَالِ لٰکِنْ یَنْظُرُ وَ یَتَفَکَّرُ أنَّہٗ یَنْقَسِمُ إلٰی قِسْمٍ وَاحِدٍ أوْ إلٰی قِسْمَیْنِ أوْ أقْسَامٍ ثُمَّ یُقَابِلُ فِي کُلِّ قِسْمٍ حَرْفًا فَحَرْفًا ثُمَّ یَعْدِلُ جَوَابَہٗ عَلٰی مَا یَخْرُجُ إلَیْہِ السُّؤَالُ ، وَہٰذَا الأصْلُ تَکْثُرُ مَنْفَعَتُہٗ لِأنَّہ إذَا أطْلَقَ الْکَلَامَ فَرُبَّمَا کَانَ سَرِیْعَ الإنْتِقَاضِ لِأنَّ اللَّفْظَ قَلَّمَا یَجْرِيْ عَلٰی عُمُوْمِہٖ} ترجمہ: اصل یہ ہے کہجب سائل کوئی سوال کرے تو مسئول کو چاہئے کہ مطلقاً جواب نہ دے، بلکہ اس میں غور وفکر کرے کہ وہ کتنے اقسام پر منقسم ہو تاہے، آیا ایک پر یادو پر یاتین پر، پھر ہر قسم کا تقابل کرے حرف بحرف، پھر اپنے جواب کو سوال کے مطابق برابر کرے۔ یہ اصول بڑا نافع ہے، کیوںکہ جب مجیب اپنے کلام کو مطلق رکھتا ہے تو بہت جلد نقض سے دو چار ہوجا تاہے، اس لیے کہ لفظ بہت کم اپنے عموم پر جاری ہوتا ہے۔مثال ۱: اگر کوئی شخص کسی عالم سے یہ سوال کرے کہ ایک آدمی نے ظہر کی نماز میں دو رکعتوں پر ہی سلام پھیر دیا تو کیا نماز فاسد ہوگی؟ تواسے چاہیے کہ وہ سائل سے یہ معلوم کرلیں کہ سلام سہواً پھیر دیا یا