الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
جائے ،یہ بھی حکم منصوص ہے، یہاں غلام کا مومن ہونا مذکور نہیں ہے، تو اس حکمِ منصوص کو کفارۂ قتلِ خطا والے حکمِ منصوص پر قیاس کرکے غلام میں ایمان کی قید کا اضافہ درست نہیں ہے۔قاعدہ(۲۹۰): {لا یُقَدَّمُ أحَدٌ فِي التَّزَاحُمِ عَلَی الْحُقُوْقِ إلَّا بِمُرَجِّحٍ} ترجمہ: مزاحمت فی الحقوق کی صورت میں کسی ایک کو مقدم نہیں کیا جائے گا، مگر کسی مرجِّح کے سبب۔ (قواعد الفقہ:ص۱۱۳، القاعدۃ:۲۸۰)مثال: اگرکسی ادارہ میں عہدۂ افتاء یا تدریس کی جگہ خالی ہو، اور کئی لوگوں نے درخواستیں دے رکھی ہوں، تو کسی ایک کو یوں ہی مقدم نہیں کیا جائے گا، بلکہ وجہ ترجیح کی بنیاد پرہی تقرر عمل میں آئے گا،اور اگر تمام درخواست دہندگان میں وجوہ ِترجیح پائی جائیں تو قرعہ ڈالا جائے گا، مثلاً دو مفتیوں نے یا دو مدرسوں نے درخواست دے رکھی ہے، اور دونوں باصلاحیت ہیں، لیکن ایک میں صلاحیت کے ساتھ صالحیت بھی ہے، اور دوسرے میں محض صلاحیت ہے صالحیت نہیں تو پہلامقدم ہوگا ،اور اگر دونوں صالح ہوں، مگر ایک تجربہ کار ہو اور دوسرا نہیں تو پہلا مقدم ہوگا۔ (رحمانی)قاعدہ(۲۹۱){لا یُنْسَبُ إلٰی سَاکِتٍ قَوْلٌ لٰکِنَّہٗ فِي مَعْرَضِ الْحَاجَۃِ بَیَانٌ} ترجمہ: خاموش انسان کی طرف کسی قول کو منسوب نہیں کیا جائے گا،لیکن محلِ حاجتِ بیان میں خاموشی بیان ہے۔ (شرح الأشباہ والنظائر:۱/ ۴۳۸، قواعد الفقہ:ص۱۱۳، رقم القاعدۃ:۲۸۲، القواعد الفقہیۃ :ص۹۱، ۳۰۲، ۴۱۹ ، شرح القواعد الفقہیۃ:ص۱۵۰، درر الحکام :۱/۶۶، المادۃ :۶۷، القواعد الکلیۃ :ص۳۳۷)مثال: اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو اس کا مال ضائع کرتے ہوئے دیکھ رہا ہو،پھر بھی وہ خاموش رہے، تو اس کی یہ خاموشی اتلافِ مال کی اجازت نہیں ہے،البتہ باکرہ لڑکی کا سکوت اس کی رضامندی کے درجہ میں ہے۔ (شرح الأشباہ والنظائر:۱/ ۴۳۸)