الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ’’فإذا أمر تکم بشيء فخذوا منہ ما استطعتم ، وإذا نہیتکم عن شيء فانتہوا ‘‘ ۔ (شروح سنن ابن ماجۃ:۱/۵۴، کتاب المقدمۃ ، رقم الحدیث:۲، بیت الأفکار الدولیۃ الأردن)مثال: شربِ خمر کی حرمت اسی قاعدہ پر مبنی ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیہما إثم کبیر ومنافع للناس}۔تجھ سے پوچھتے ہیں حکم شراب کا اور جوے کا کہہ دے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور فائدے بھی ہیں لوگوں کو۔ (البقرۃ:۲۱۹)قاعدہ(۱۴۵): {دَعْوَی السَّبَبِ کَدَعْوَی الْحُکْمِ الثَّابِتِ بِالسَّبَبِ} ترجمہ: دعویٔ سبب ،سبب سے ثابت حکم کے دعویٰ کی مانند ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۵/۳ ، باب الموادعۃ ، قواعد الفقہ:ص۸۱، القاعدۃ:۱۳۴)مثال: کسی شخص نے کسی پر سببِ رقیت کا دعوی کیا اور وہ اس کا منکر ہے تو اس کی رقیت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا، جب تک کہ مدعی کے پاس بینہ نہ ہو، کیوںکہ سبب کا دعوی سبب سے ثابت حکم (رقیت) کے دعوی کی مانند ہے اور رقیت بلابینہ ثابت نہیں ہوتی ہے۔ (شرح السیر:۴/ ۲۷)مثال: کسی شخص نے کسی کی گاڑی خریدنے کا دعوی کیا، تو یہ دعوی درحقیقت ملکیت کا دعوی ہے، جو بلا بینہ ثابت نہیں ہوگا۔قاعدہ(۱۴۶): {اَلدَّلَالَۃُ فِي الْمَقَادِیْرِ الَّتِي لا یَسُوْغُ الِاجْتِہَادُ فِي إثْبَاتِ أصْلِہَا مَتٰی اتَّفَقَتْ فِي الْأقَلِّ وَاضْطَرَبَتْ فِي الـزِّیَـادَۃِ یُوْخَذُ بِالْأقَلِّ فِیْمَا وَقَعَ الشَّکُ فِيْ إثْبَاتِہٖ وَالأکْثَرِ فِیْمَا وَقَعَ الشَّکُ فِيْ إسْقَاطِہٖ} ترجمہ: جن مقداروں کے اصل کو ثابت کرنے کے لئے اجتہاد کی گنجائش نہ ہو، جب ان میں دلالت، اقلِ مقدار پر متفق ہو اور اکثرِمقدارمیں متردد ہو، تو اقلِ مقدار معتبر ہوگی جہاں اثباتِ واجب میں شک واقع ہو ۔ اور اکثرِ مقدار معتبر ہوگی جہاں اسقاطِ واجب میں شک ہو ۔ (قواعد الفقہ:ص۸۱، القاعدۃ:۱۳۵)