الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
مثال: کسی غلام نے زنا کیا اور دو ذمی یہ گواہی دیں کہ اس کے آقا نے اس کو زنا سے پہلے ہی آزاد کردیا تھا،یعنی اس نے بحالتِ حریت زنا کیا، لہٰذا اس کی سزا رجم(سنگ سار کرنا) ہونا چاہیے ،تو ان کی اس شہادت سے غلام کا محصَن ہونا ثابت نہیں ہوگا اور اسے سنگ سار نہیں کیا جائے گا،کیوںکہ اس شہادت سے عبدِ مسلم کو ضرر پہنچ رہا ہے۔ البتہ ان کی شہادت سے بلا تعیینِ زمان غلام کا آزاد ہونا ثابت ہوگا، کہ اس سے عبدِ مسلم کا فائدہ ہے، نقصان نہیں ۔قاعدہ(۱۶۷): {اَلشَّہَادَۃُ بِأکْثَـرَ مِنَ الْمُدَّعٰی بَاطِلَۃٌ بِخِلافِ الأقَلِّ} ترجمہ: مدعیٰ سے زیادہ کی شہادت باطل ہے، بخلاف اقل کے۔ (الدرالمختار مع الشامي:۸/۲۱۵، کتاب الشہادات، باب الاختلاف في الشہادۃ، قواعد الفقہ:ص۸۶، القاعدۃ:۱۵۶)مثال: جب کسی شخص کے حق میں ملک بالسبب کی شہادت دی جائے تو وہ قبول ہوگی، کیوںکہ ملک بالسبب مطلق ملک سے کم تر ہے۔ (رد المحتار:۴/۴۰۵)قاعدہ(۱۶۸): {اَلشَّہَـادَۃُ عَلٰی حُـقُـوْقِ الْعِبَـادِ لا تُقْبَـلُ بِلا دَعْویٰ بِخِلافِ حُقُوْقِ اللّٰہِ} ترجمہ: بندوں کے حقوق میں شہادت بلادعوی قبول نہیں کی جاتی، برخلاف حقوق اللہ کے۔ (الدرالمختار مع الشامي:۸/۲۱۵، کتاب الشہادات، باب الاختلاف في الشہادۃ، قواعد الفقہ:ص۸۶، القاعدۃ:۱۵۷)مثال: دوگواہوں نے گواہی دی کہ زید نے بکر پر زنا کی تہمت رکھی،لہذا زید پر حدِ قذف قائم کی جائے ،تو ان کی یہ شہادت قابلِ قبول نہیں ہو گی، جب تک کہ خود بکر کی طرف سے حدِ قذف کا مطالبہ نہ ہو۔ اور اگرچار گواہوں نے زید کے خلاف زنا کی گواہی دی، تو ان کی یہ شہادت بلادعویٰ قبول ہوگی اور زید پر حدِ زنا قائم کی جائے گی، یعنی محصَن ہونے کی صورت میں رجم (سنگ سار) کیا جائے گا اور غیر محصَن ہونے کی صورت میں سو دُرّے مارے جائیںگے۔فائدہ: کوئی بھی انسان محصَن اس وقت ہوتاہے، جب اس میں یہ شرطیں پائی جائیں (۱) عاقل ہونا (۲)بالغ ہونا(۳) مسلمان ہونا (۴)آزاد ہونا (۵) نکاحِ صحیح کیا ہوا ہونا (۶) دخول کرنا۔