الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
اور اگر رب المال مضارب سے یوں کہے کہ ادھار کے بدلہ خرید وفروخت کرنا ، نہ کہ نقد کے بدلہ، اور مضارب نے نقد خرید وفروخت کرکے اس شرط کی مخالفت کی ، تو یہ جائز ہے، کیوں یہ شرط، شرطِ مفید نہ ہونے کی وجہ سے اس کی رعایت واجب نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع:۸/۵۵، کتاب المضاربۃ ، بیروت)ملاحظہ: جس شی ٔ پر کسی شی ٔ کا وجود منحصر ہو اور وہ اس شی ٔ کی حقیقت میں داخل نہ ہو اسے شرط کہتے ہیں۔قاعدہ(۱۶۳): {شَرْطُ صِحَّۃِ الصَّدَقَۃِ اَلتَّمْلِیْکُ} ترجمہ: صحتِ صدقہ کی شرط تملیک ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۸۵، القاعدۃ:۱۵۰، شرح السیرالکبیر:۵/۱۱۶، باب الوصیۃ في سبیل اللہ والمال یعطی)مثال: اگر کوئی تنظیم اموالِ زکوۃ جمع کرکے اس سے ہاؤسنگ کالونی بنا کر ، اسے اپنی ہی ملک میں باقی رکھ کر مستحقینِ زکوۃ کو محض رہنے کے لیے دیدے، تو اس سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی، جب تک کہ ان کو ان مکانات کا مالک نہ بنایا جائے، کیوں کہ ادائیگی ٔ زکوۃ کے صحیح ہونے کے لیے مستحقین کو مالک بنانا ضروری ہے۔مثال: زید نے عمرو کو دس روپئے صدقہ دیا اور اسے اس کا مالک بنادیا ،تو صدقہ کی ادائیگی صحیح ہوگی، جب تک عمرو کو دس روپئے کا مالک نہیں بنایاجاتا، تصدق صحیح نہیں ہوگا۔قاعدہ(۱۶۴): {شَرْطُ الْوَاقِفِ کَنَصَِّ الشَّارِعِ فِي وُجُوْبِ الْعَمَلِ بِہٖ وَ فِي الْمَفْہُوْمِ وَالدَّلَالَۃِ} ترجمہ: شرطِ واقف، نصِ شارع کی مانند ہے،اس کے مطابق عمل کے واجب ہونے اور مفہوم ودلالت میں۔ (الأشباہ والنظائر:۲/۱۰۶، قواعد الفقہ:ص۸۵، القاعدۃ:۱۵۲، ترتیب اللآلي:ص۶۷۸، الدر المختار مع الشامي:۶/۶۴۹، کتاب الوقف، مطلب في قولہم : شرط الواقف کنصّ الشارع)نوٹ: یہاں مفہوم سے مراد ’’ ما یفہم من اللفظ ‘‘یعنی مفہومِ لفظ ہے، نہ کہ وہ مفہوم، جو منطوق کا مقابل ہے،یہ ایک اصولی بحث ہے، جو طلباء اصول خوب سمجھتے ہیں۔