الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
لازم آئے گا، کیوں کہ آزاد مال نہیں ہے ، لہذا اس کے عوض نکاح بھی درست نہیں، گویا یہ ایسا ہوا کہ اس نے مہر مقرر ہی نہیں کیا ، اور عدمِ تسمیہ بالمہر کی صورت میں مہر مثل لازم ہوتا ہے۔ وإن تزوجہا علی ہذا العبد فإذا ہو حر یجب مہر المثل عند أبي حنیفۃ ومحد رحمہما اللہ ، وقال أبویوسف: تجب القیمۃ ۔ (ہدایہ:۲/۳۳۱)فائدہ: مہر مثل سے مراد، باپ کی قوم کی عورتوں میں سے بوقتِ عقد جو عورت اوصاف(عمر، جمال، مال، بلدیت، عصریت، عقلیت، دیانت، بکارت، ثیوبت، عفت، علم و ادب ، کمالِ خلق اور عدمِ ولد) میں اس عورت کے برابر ہو، اس کا مہر ، مہرِ مثل کہلائے گا۔ (غایۃ الأوطار:۲/۵۹، کتاب النکاح ، باب المہر)نوٹ: مہر مثل وہاں واجب ہوتا ہے جہاں نکاح صحیح ہو اور مہر کا تسمیہ نہ ہو، یا تسمیہ مجہول ہو، یا اس چیز کا تسمیہ ہو جو شرعاً حلال نہیں ہے، اور نکاحِ فاسد میں بعد وطی کے مہر مثل ہے، اور وطی بالشبہ میں جو مہر لازم آتا ہے تو اس سے مراد مہرِ مثل مذکور نہیں بلکہ وہاں مہر مثل سے مراد ’’عُقر‘‘ہے ، عُقر اس کو کہتے ہیں کہ اگر زنا حلال ہوتا تو اس عورت کی کیا اجرت ہوتی، اسی قدر وطی بالشبہ میں دینا لازم ہوگا۔ (غایۃ الأوطار:۲/۵۹، کتاب النکاح ، باب المہر)قاعدہ(۱۶): {إذَا اجْتَمَعَ أمْرَانِ مِنْ جِنْسٍ وَاحِدٍ وَلَمْ یَخْتَلِفْ مَقْصُوْدُہُمَا دَخَلَ أحَدَُھُمَا فِي الْآخَرِ غَالِبًا} ترجمہ: جب ایک ہی جنس کے دو امر جمع ہوں اور دونوں کا مقصود بھی مختلف نہ ہو تو ایک، دوسرے میں غالباًداخل ہوگا ۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :ص۴۳۰، الأشباہ والنظائر للسیوطي :۱/۲۸۱، القواعد الفقہیۃ:ص۱۵۲، قواعد الفقہ:ص۵۴، رقم القاعدۃ:۱۱، جمہرۃ القواعد:رقم القاعدۃ:۱۰۶)مثال: جب حدث (بے وضو ہونا) ، جنابت اور حیض بیک وقت جمع ہوں توایک ہی غسل سب کے لئے کافی ہوگا۔