الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۱۸): {فِعْلُ الْقَاضِيْ حُکْمٌ کَأمْرِ الْقَاضِي} ترجمہ: قاضی کا فعل اس کے قول کی طرح حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۹۵، القاعدۃ:۲۰۱)مثال: قاضی اپنے لئے فیصلہ کا اختیار نہیں رکھتا ہے اورچونکہ اس کا فعل بھی اس کا حکم اور فیصلہ ہی ہے، تو وہ اس یتیم لڑکی کا نکاح اپنی ذات سے نہیں کر سکتا، جس کا کوئی ولی نہیں ہے اور نہ اپنے بیٹے کے ساتھ اور نہ ان لوگوں کے ساتھ، جن کی گواہی قاضی کے حق میں قابلِ قبول نہیں ہے۔ (الأشباہ:ص۳۳۹)قاعدہ(۲۱۹): {فِعْلُ الْوَکِیْلِ کَفِعْلِ الْمُؤَکِّلِ} ترجمہ: وکیل کا فعل مؤکل کے فعل کے مانند ہوتا ہے ۔ (جمہرۃ القواعد :۲/۸۰۰، رقم: ۱۳۱۸)مثال۱: وکیل نے کوئی سامان خریدا اور مؤکل کے حوالہ کرنے سے پہـلے اس سامان میں کوئی عیب پایا ،تو مؤکل کی اجازت کے بغیربائع کو وہ سامان لوٹا سکتا ہے، کیوں کہ وکیل کا فعل مؤکل کا فعل ہے ۔ (شرح المجلۃ:ص۸۰۲، المادۃ: ۱۴۸۹، درر الحکام:۳/۶۰۰)مثال۲: مؤکل نے اپنے وکیل کو موٹرسائیکل خریدنے کے لیے بازار بھیجا ،اور بعد از خرید واپسی میں ایکسیڈنٹ میں اس موٹر سائیکل کا کچھ نقصان ہوگیا ، تو یہ نقصان مؤکل کا ہوگا ، نہ کہ وکیل کا۔ (درر الحکام :۳/۶۰۵، تحت المادۃ:۱۴۹۲)قاعدہ(۲۲۰): {قَضَائُ الْقَاضِيْ فِي الْمُجْتَہَدَاتِ یَکُوْنُ نَافِذاً} ترجمہ: قاضی کا فیصلہ مجتہد فیہ مسائل میں نافذہو گا۔ (شرح السیر الکبیر:۱/۷۶، باب ما یجب من طاعۃ الوالي وما لا یجب ، ۲/۱۳۸، دار الکتب العلمیۃ بیروت ، قواعد الفقہ:ص۹۷، القاعدۃ:۲۰۶ ، جمہرۃ القواعد: القاعدۃ:۲۰۶۳)مثال: دو گواہوں کی گواہی سے شخصِ غائب کے خلاف فیصلہ کرنا مجتہد فیہ ہے (بعض ائمہ کے نزدیک قضا علی الغائب درست نہیں ہے) لیکن اگر قاضی بیِّنہ کے موجود ہونے اور ضرورتِ داعیہ کی وجہ سے اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے تو اس کا فیصلہ نافذ ہو گا، بشرطیکہ قاضی خود مجتہد ہو۔ (الأشباہ:ص۳۳۴)