الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
بیع استصناع کی یہ صورت جائز ودرست ہے، واضح ہو کہ ایسی صورت حال میں کسی بلڈنگ کی مکمل تعمیر سے پہلے اس میں تعمیر کئے جانے والے دفاتر یا مکانات وغیرہ کا خریدنا اور بک کروانا اگر محض پہلی مرتبہ ہی ہو ، توبیع استصناع کے طور پریہ جائز ودرست ہے، پھر بیع استصناع میں جب تک شئ تیار کرکے مشتری کے سپر د اور حوالہ نہ کی جائے ،اس وقت تک مشتری کی ملک نہ ہونے اور شئ کے معدوم ہونے کی بناء پر اس کا آگے کسی دوسرے کے نام فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، لہذا محض قانونی اجازت اور کاغذات کو بنیاد بناکر اسے آگے بیچنا اور اس پر بروکری (دلالی)کرنا اور کمیشن لینا ہر دو امور شرعاً ناجائز اور ممنوع ہیں، جن سے اجتناب واحتراز لازم ہے ۔ (المبسوط للسرخي :۱۲/۱۶۵، کتاب البیوع ، الکافي في فقہ الحنفي :۳/۱۱۴۴، کتاب البیوع، الاستصناع، الہدایۃ:۳/۸۴، کتاب البیوع، باب السلم ، الموسوعۃ الفقہیۃ :۹/۱۴، البیع ، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام :۱/۱۷۷، المادۃ:۱۹۷)ٌقاعدہ(۳۵۴): {اَلْمَوْجُوْدُ فِيْ حَالَۃِ التَّوَقُّفِ کَالْمَوْجُوْدِ فِي أصْلِہٖ} ترجمہ: جو شیٔ حالت توقف میں پائی جائے ،وہ اصل عقد کے وقت موجود کی طرح ہے۔ (قواعد الفقہ :ص۱۳۱، القاعدۃ:۳۶۲،اصول کرخي)مثال: زیدنے بکر کا کارخانہ اس کی اجازت کے بغیر عمرو سے بیچ دیا، تویہ بیع بیعِ موقوف ہے، یعنی اس کی صحت بکر کی اجازت پر موقوف ہے، اب بیع کے بعد بکر کی اجازت سے پہلے اس کارخانہ سے کوئی منفعت حاصل ہو، پھر بکر بیع کی اجازت دیدے تو بیع صحیح ہوگی، اور عمرو اتنی ہی قیمت میں،جس پر عاقدین راضی ہوئے تھے، اس منفعت کا بھی مالک ہوگا،یعنی زمانۂ توقف میں کارخانہ کے تمام منافع کا مالک عمرو کو قرار دیا جائے گا،اور یہ اسی کی ملک ہوں گے،کیوں کہ بیع موقوف میں بعد از اذن مالک مشتری کی ملک وقتِ عقدسے تسلیم کی جاتی ہے۔ بیعِ موقوف، ملک کی علت ہے اسماً ومعنیً لاحکماً۔ (اصول کے طلبہ غور کریں)