الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۸۹): {اَلضَّمَانَاتُ تَجِبُ إمَّا بِأخْذٍ أوْ بِشَرْطٍ وَإلَّا لَمْ تَجِبْ} ترجمہ: ضمانات یا تو واجب ہوتے ہیں بسببِ اخذ یا بسببِ شرط،ورنہ نہیں ۔ (قواعد الفقہ:ص۸۹، القاعدۃ:۱۷۲)مثال: غصب کردہ شی ٔ غاصب کے پاس ہلاک ہوجائے تو ضمان واجب ہوگا(یہ اخذ کی مثال ہے) ۔ اور اگر زید کہے کہ: ’’میں نے یہ سائیکل ہزار روپئے کے عوض بیچ دی‘‘ اور عمرو کہے :’’ میں نے قبول کیا‘‘،تویہ قبولِ عقد بھی ضمان کا سبب ہوگا (یہ شرط کی مثال ہے)۔قاعدہ(۱۹۰): {اَلْعَادَۃُ مُحَکَّمَۃٌ} ترجمہ: عادت کو حکم بنایا جاتا ہے۔ (الأشباہ والنظائر لإبن نجیم:۱/۳۲۸ ، الأشباہ والنظائر للسیوطي :۱/۱۹۳، شرح السیر الکبیر:۱/۱۲۳، باب الأمان ، درر الحکام :۱/۴۴ ، المادۃ :۳۶ ، ترتیب اللآلي :ص۸۲۱، قواعد الفقہ:ص۹۰، القاعدۃ: ۱۷۶، شرح القواعد :ص۲۱۹، القواعد الکلیۃ :ص۲۲۹)توضیح: کبھی اثباتِ حکمِ شرعی کے لئے عادت کو حَکم بنا یا جاتا ہے۔مثال: اسی قاعدہ پر ماء جاری کی تعریف متفرع ہے، کہ جس کو لوگ ماء جاری شمار کریں، وہ ماء جاری ہے؛ اسی طرح اگر حیض اور نفاس میں دم، اکثرِ حیض دس دن اور اکثرِ نفاس چالیس دن سے زائد پر بند ہو، تو عورت اپنی عادت کی طرف رجوع کرے گی اور جتنے ایام، ایامِ عادت تھے،اتنے ایام حیض یا نفاس کے شمار ہونگے، اور ان کے ماسوا استحاضہ ہوگا۔ (الأشباہ:۱/۲۶۹)قاعدہ(۱۹۱):{اَلْعَارِضُ إذَا ارْتَفَعَ مَعَ بَقَائِ حُکْمِ الأصْلِ جُعِلَ کَأنْ لَمْ یَکُنْ} ترجمہ: جب عارض بقائِ حکمِ اصل کے باوجود مرتفع ہو، تو اس کو ایسا قرار دیا جائے گا گویا وہ تھا ہی نہیں۔ (قواعد الفقہ:ص۹۰، القاعدۃ:۱۷۸، شرح السیر الکبیر:۳/۸۲، باب دفع الفرس باشتراط السہم وإعادتہ وإیداعہ في دار الحرب ،۴/۲۲، باب الشرکۃ في الغنیمۃ)