الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
ہے: ’’ لا یحل مال امریٔ مسلم إلا بطیب نفس منہ‘‘ ۔’’کسی مسلمان کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں ہے‘‘ ۔ (سنن الدارقطني:۳/۲۲، کتاب البیوع، رقم الحدیث:۲۸۶۲، مشکوۃ المصابیح: ص۲۵۵، کتاب الغصب والعاریۃ ، جمع الجوامع:۹/۷، تتمۃ حرف اللام الألف، رقم الحدیث: ۲۶۷۵۹) مفتی ٔاعظم حضرت مولانا شفیع صاحب ؒ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر مدرسہ والے کسی صاحبِ اثر و رسوخ کو لیکر چندہ کرتے ہیں اور ایک آدمی جو صرف پانچ روپئے دینا چاہتا تھا، لیکن ان صاحب کے زیر اثر آکر اس نے دس روپئے دیئے تو صرف پانچ روپئے ہی حلال ہیں، کیوںکہ وہ خوش دلی سے دیئے گئے ،اور دوسرے پانچ روپئے محض دبائو کی وجہ سے، جس میں خوش دلی نہیں، لہٰذا وہ حلال نہیں ہوئے۔قاعدہ(۲۸۱):{لا یَجُوْزُ لِأحَدٍ أنْ یَتَصَرَّفَ فِي مِلْکِ الْغَیْرِ بِغَیْرِ إذْنِہٖ} ترجمہ: دوسرے کی ملک میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔ (درر الحکام :۱/۹۶، المادۃ :۹۶، قواعد الفقہ:ص۱۱۰،رقم القاعدۃ:۲۷۰، القواعد الفقہیۃ :ص۸۵، ۱۲۳، شرح القواعد:ص۴۶۱ ، جمہرۃ القواعد: القاعدۃ:۱۹۰۰القواعد الکلیۃ :ص۳۳۳)مثال۱: کسی کی سائیکل کھڑی ہو ،اور کسی شخص کو کوئی ضرورت پیش آئی،تو اس نے اس کے مالک سے اجازت لئے بغیر اس کو لیا،اس پر سواری کی ،اور کہیں جاکر واپس آگیا،پھر سائیکل وہیں کھڑی کردی جہاں تھی، تو اس کا یہ عمل شرعاً ناجائز ہے۔مثال۲ : مسجد کے باہر نمازی اپنی چپلیں اتارتے ہیں، بعض لوگ چمڑے کے جوتے پہن کرمسجد آتے ہیں،اور چمڑہ خراب ہونے کے اندیشہ سے وہ انہیں بیت الخلاء وغیرہ نہیں لیجانا چاہتے ، توبلا تکلف دوسرے کی سیلیپر چپل پہن کر استنجاء وغیرہ کے لئے چلے جاتے ہیں ، ان کا یہ عمل شرعاً جائز نہیں ہے۔مثال۳: کوئی شخص حمام میں داخل ہوا، وہاں کسی اور شخص کا صابن رکھا ہوا ہو، یا وہ بھول کر چلا گیا ہو،تو اس شخص کے لیے اس صابن کا استعمال شرعاً ناجائز ہے ،کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ لا عتق فیما لا یملکہ ابن آدم‘‘ ۔’’ابن آدم جس غلام کا مالک نہیں اس میں اس کا عتق