الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا فرمان ناف سے لیکر گھٹنوں تک کے حصۂ بدن سے استمتاع کی حرمت کا تقاضہ کرتا ہے،جب کہ دوسرا فرمان وطی کے سوا جمیع بدن سے استمتاع کی اباحت کا مقتضی ہے، تو احتیاطاً تحریم راجح ہوگی اور مافوق الازار سے استمتاع بلاحائل و بالحائل مباح ہوگا۔ رہا ناف سے لیکر گھٹنوں تک کاحصہ، تو اس سے استمتاع بلاحائل حرام اور بالحائل مباح ہوگا۔ (غمز عیون البصائر:۱/ ۳۳۷)قاعدہ(۳۰۱): {مَا انْتَفٰی دَلِیْلُ تَحْرِیْمِہٖ لا یَحْرُمُ} ترجمہ: جس چیز کی دلیلِ تحریم منتفی ہو ، وہ حرام نہیں ہوتی۔ (موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۹/۴۹)مثال: حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ان کی خالہ حضرت میمونہ ؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گھی، گوہ اور پنیر ہدیہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھی اور پنیر کو تو تناول فرمایا ، مگر گوہ کو مکروہ سمجھ کر چھوڑدیا۔اور آپ کے دستر خوان پر گوہ کھائی گئی ، اگر وہ حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر نہیں کھائی جاتی۔ (معلوم ہوا کہ اکل گوہ کی دلیلِ حرمت منتفی ہے،اس لیے وہ حرام نہیں ہے)۔ عن ابن عباس رضي اللہ عنہ : ’’ أن خالتہ أہدت إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سَمناً وأضُبًّا وأقطّاً ، فأکل من السمن ومن الأقط ، وترک الأضبَّ تقذّرا ، وأکل علی مائدتہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ولو کان حراماً ما أکل علی مائدۃ رسول اللہ ‘‘ ۔ قال النووي : أجمع المسلمون علی أن الضبّ حلال لیس بمکروہ ، إلا ما حکي عن أصحاب أبي حنیفۃ من کراہتہ ، وإلا ما حکاہ القاضي عیاض عن قوم أنہم قالوا ہو حرام وما أظنہ یصح عن أحد ، وإن صح عن أحد فمحجوج بالنصوص وإجماع من قبلہ ۔ (عون المعبود:ص۱۶۲۵، کتاب الأطعمۃ ، باب في أکل الضب ، رقم :۳۷۹۳)قاعدہ(۳۰۲): {مَا انْتَفٰی دَلِیْلُ وُجُوْبِہٖ لا یَجِبُ} ترجمہ: جس چیز کی دلیلِ وجوب منتفی ہو، وہ واجب نہیں ہوتی۔ (موسوعۃ القواعد الفقہیۃ:۹/۴۹)