الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
زندگی معتبر نہیں، یہ اسلام تاقیام قیامت جمیع اولاد آدم کے لئے آئین حیات ہے۔ قرآن و سنت میں یہ آئین وقوانین دو قسم کے ہیں:اول : وہ جو قوانین کلیہ کی شکل میں ہیں ،مثلاً قرآن عزیز میں ہے:{لا تزر وازرۃ وزر أخری}۔ اور حدیث میں ہے ’’ لا ضرر ولا ضرار‘‘،’’الخراج بالضمان‘‘۔دوم : وہ جو قضایائے جزئیہ کی حیثیت رکھتے ہیں ،مثلا ایک شخص کا کوئی قضیہ رونما ہوا،اس کے پیش نظر قرآن میں کوئی حکم آیا یا بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی فیصلہ صادر ہوا؛ قرآن و سنت کے یہ فیصلے جو جزئی ہیں ،وہ بھی باستثناء بعض کلی ہیں؛ کیوں کہ وہ بھی کسی نہ کسی کل پر مبنی ہوتے ہیں۔ پس یہ بھی گرچہ اپنے متعلق کے اعتبار سے جزئی ہیں، وہ بھی باستثناء بعض کلی ہیں؛ کیوںکہ وہ بھی کسی نہ کسی کلی پر مبنی ہوتے ہیں؛ پس یہ بھی گر چہ اپنے متعلق کے اعتبار سے جزئی اورشخصی نظرآتے ہیں، مگر ان کے پیچھے کلی کی روح مستور ہوتی ہے ۔ یہی وہ پوشیدہ روح ہے، جس پر ہر شخص کی نگاہ نہیں پہنچ پاتی تو انہیں بہت سے مسائل جدیدہ کا حل قرآن وسنت میں نظر نہیں آتا،مگر اللہ کا نظام تکوینی ہے کہ تاقیامت اسلام کو باقی رکھنا ہے اور ہر دور کے مسائل کا حل اسی اسلام میں مضمر رکھا ہے تو ہر زمانہ میں اس روح اسلامی کے سمجھنے والے اہل بصیرت علماء وفقہاء وجود میں آتے رہیں گے، جو حوادث و قضایائے جدیدہ کو قوانین اسلامیہ اساسیہ کی روح کے آئینہ میں حل کرتے رہیں گے؛ اسی وجہ سے قرآن عزیزنے اس نوع کی افراد سازی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حکم دیا:{فَلَولا نَفَرَمِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِنْہُمْ طَائِفَۃٌ لِیَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّیْنِ}۔ (سورۂ توبہ) اورایک دوسری آیت میں اس کی اہمیت کو یوں اجاگر کیا گیا :{ومن یؤتی الحکمۃ فقد أوتي خیرا کثیرا}۔ (سورۂ بقرہ) اور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ’’من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ في الدین‘‘۔ (بخاری ومسلم ) اور ’’فقیہ واحد أشد علی الشیطان من ألف عابد‘‘۔(ترمذی)