الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۴۲): {کُلُّ صَلٰوتَیْنِ لا یَجُوْزُ بِنَائُ إحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْریٰ فِي حَقِّ الْمُنْفَرِدِ لا یَجُوْزُ بِنَائُ إحْدَاہُمَا عَلَی الأُخْریٰ فِي حَقِّ إمَامِہٖ} ترجمہ: ہر دو ایسی نمازیںکہ ان میں سے ایک کی بنا دوسری پر منفردکے حق میں جائز نہیں ہے،ان میں سے ایک کی بنا دوسری پراپنے امام کے حق میں بھی جائز نہیں ہے۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۱، رقم القاعدۃ:۲۲۷)مثال: فرض پڑھنے والے کی اقتدا نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست نہیں ہے، کیوںکہ فرض کی بنا تحریمۂ نفل پر بحالتِ انفراد جائز نہیں ہے۔ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کی اقتدا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے پیچھے جائز ہے، کیوںکہ منفرد کھڑے ہوکر پڑھی ہوئی نماز کی بنا بیٹھ کر پڑھی ہوئی نماز پر کر سکتا ہے، لہٰذا یہ بات اس کے امام کے حق میں جائز ہوگی، یعنی ’’إقتداء القائمِ خَلْفَ الْقَاعِدِ‘‘( کھڑے ہونے والے کی اقتدا بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے پیچھے) صحیح اور درست ہے۔قاعدہ(۲۴۳):{کُلُّ عَقْدٍ لَہٗ مُجِیْزٌ حَالَ وُقُوْعِہٖ تَوَقَّفَ عَلَی الإجَازَۃِ وَإلَّا فَلا} ترجمہ: ہر وہ عقد جس کا بوقتِ وقوعِ عقد کوئی اجازت دینے والا موجود ہو،و ہ اجازت پر موقوف ہوگا، یعنی اجازت دینے پر نافذ ہوگا، ورنہ نہیں۔ (قواعد الفقہ:ص۱۰۱، القاعدۃ:۲۲۸، جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۸۳۹، رقم القاعدۃ:۱۵۷۱)مثال: نابالغہ نے اپنا نکاح خود سے کیا، وہاں نہ کوئی والی تھا اور نہ کوئی حاکم، لیکن جس مقام پر عقد ہوا وہ سلطانِ وقت کی ولایت میں داخل ہے تو یہ عقد موقوف ہوگا، اور بلوغ کے بعد اس بچی کی اجازت سے نافذ ہوگا۔ لیکن اگریہی واقعہ ایسے مقام پر پیش آئے جو سلطانِ وقت کی ولایت میں داخل نہیں ، مثلاً دار الحرب ،یا سمندر،یا بیابان میں تو یہ عقد موقوف نہ ہوگابلکہ باطل ہوگا۔ (رد المحتار:۲/ ۳۲)