الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
یہ بات بعید از قیاس ہے کہ ، کوئی فقیہ مجتہد کسی مسئلۂ فقہیہ کے حکم کی بنیاد محض اپنی رائے یا خواہشِ نفسانی پر رکھے ، کیوںکہ یہ لوگ بڑے متقی اورخداتر س تھے ، انہیں ہمہ وقت آخرت اور اس کی جوابدہی کا استحضار رہا کرتا تھا۔ اس طرح کے قواعد کی مثال(۱): ’’إِنَّمَا یَثْبُتُ الْحُکْمُ بِثُبُوْتِ السَّبَبِ‘‘۔ ’’ثبوت سبب سے ہی حکم ثابت ہوتا ہے‘‘۔…یہ ایک ایسا اصولی فقہی قاعدہ ہے جس کا استنباط فقہاء مجتہدین نے اجماع اور معقول نصوص سے کیا۔ اس قاعدہ پر آپ یہ تفریع فرماسکتے ہیں کہ نماز ظہر کا وجوب اور بندہ کے ذمہ اس کا متعلق ہونا زوال شمس سے ثابت ہوگا(کیوں کہ وہ سبب ہے)، معلوم ہوا کہ زوال شمس ثبوتِ وجوب ظہر کا سبب ہے، اگر زوال ثابت نہ ہو تو وجوب بھی ثابت نہ ہوگا۔ اس قاعدہ کے لیے فرمان خدواندی :{اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إلٰی غَسَقِ الَّلیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ} سے استدلا ل کیا جاتا ہے۔ مثال (۲): ’’ الأیْمَانُ فِيْ جَمِیْعِ الْخُصُوْمَاتِ مَوْضُوْعَۃٌ فِيْ جَانِبِ الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ اِلَّا فِيْ الْقَسَامَۃِ ‘‘۔’’تمام مقدمات میں قسمیں جانب مدعیٰ علیہ میں موضوع ہیں، سوائے قسامت کے‘‘۔ …یہ قاعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث:’’ اَلْبَیِّنَۃُ عَلَی الْمُدَّّعِيْ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی الْمُدَّعٰی عَلَیْہِ‘‘۔ (رواہ البخاری) سے مستنبط و ماخوذ ہے۔ مثال (۳): ’’إذَا اجْتَمَعَتِ الْاِشَارَۃُ وَالْعِبَارَۃُ وَاخْتَلَفَ مُوْجِبُہُمَاغُلِّبَتِ الْاِشَارَۃُ ‘‘۔ ’’جب اشارہ اور زبانی کلام دونوں جمع ہوں اور دونوں کا حکم مختلف ہو تو اشارہ کو غلبہ دیا جائے گا‘‘۔ (الأشباہ والنظا ئرللسیوطي:ص۳۱۴)…یہ قاعدہ معقول اور عرف سے مستنبط ہے۔ مثال (۴): ’’ إذَا وَجَبَتْ مُخَالَفَۃُ أصْلٍ أوْ قَاعِدَۃٍ وَجَبَ تَقْلِیْلُ الْمُخَالَفَۃِ مَا أَمْکَنَ‘‘۔ ’’ جب کسی اصل یا قاعدہ کی مخالفت لازم آئے تو حتی الامکان مخالفت کو کم کرنا واجب ہے‘‘۔…یہ قاعدہ