الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قسم اول: وہ قواعد جو قواعد کبریٰ کے تحت داخل ہیں اور انہیں پر مرتب ہیں۔ قسم دوم: وہ قواعد جو قواعد کبریٰ میں سے کسی کے تحت داخل نہیں۔ مثال قسم اول: ’’ اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتِ‘‘۔ ضرورتیں ممنوعات ِشرعیہ کو مباح قرار دیتی ہیں۔…یہ قاعدہ قواعد کلیہ کبریٰ میں سے قاعدہ ’’ اَلْمَشَقَّۃُ تَجْلِبُ التَّیْسِیْرَ‘‘ پر مبنی ہے۔ اور قاعدہ ’’لا یُنْکِرُ تَغَیِّرُ الْأَحْکَامِ الْاِجْتِہَادِیَّۃِ بِتَغَیُّرِ الْأَزْمَانِ‘‘ ۔ یہ قاعدہ قواعد کلیہ کبریٰ میں سے ’’اَلْعَادَۃُ مُحَکِّمَۃٌ‘‘ کے تحت داخل ہے۔ مثال قسم دوم: قاعدہ: ’’اَلْاِجْتِہَادُ لا یَنْقُضُ بِالْاِجْتِہَادِ أَوْ بِمِثْلِہٖ‘‘۔ اجتہاد، اجتہاد سے نہیں ٹوٹتا۔اور قاعدہ: ’’اَلتَّصَرُّفُ عَلَی الرَّعِیَّۃِ مَنُوْطٌ بِالْمَصْلَحَۃِ ‘‘۔ رعایہ کے حق میں تصرف ان کی مصلحت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔مرتبۂ ثالثہ : وہ قواعد جو عام نہیں بلکہ وہ کسی باب یا جزء باب کے ساتھ مختص ہیں، انہیں ضوابط کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ امام عبدالوہاب ابن السبکیؒ فرماتے ہیں: ’’ فَالْقَاعِدَۃُ الأمْرُالْکُلِّيُّ اَلَّذِيْْْ یَنْطَبِقُ عََلَیْہِ جُزْئِیَاتٌ کَثِیْرَۃٌ تُفْہَمُ أحَْکاَمُہَا مِنْہَا ‘‘۔ قاعدہ وہ حکم کلی ہے جس پر بہت سی جزئیات منطبق ہوں، اور اس سے اُن کے احکام مفہوم ہوں۔ اور جس قاعدہ سے کسی ایک باب کی جزئیات یا ایک ہی طرح کی بہت سی صورتوں کو منظّم کرنا مقصود ہو اسے ضابطہ کہا جاتا ہے۔’’وَالْغَالِبُ فِیْمَا قُصِدَ بِبَابٍ وَقُصِدَ بِہٖ نَظْمُ صُوَرٍمُّتَشَابِہَۃٍ أَنْ یُّسَمّیٰ ضَابِطاً ‘‘۔ (الأشباہ والنظائر:۱/۱۱) مثال ضابطہ: ’’اِنَّ الْمُحْرِمَ اِذَا اَخَّرَالنُّسُکَ عَنِ الْوَقْتِ الْمُوَقَّتِ لَہُ اَوْقَدَّمَہُ لَزِمَہُ دَمٌ‘‘۔ جب محرم کسی ایسے واجب کو مؤخر و مقدم کرے جس کے لیے شریعت نے وقت متعین کردیا، تو اس پر دم لازم ہوگا۔ سبب ثانی(کبھی مضمون قاعدہ متفق علیہ ہوتا ہے، یا مختلف فیہ) کے لحاظ سے باعتبار مراتب قواعد کی دو قسمیں ہوںگی: