الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
وأخرج البخاري في صحیحہ عن عطاء وابن عباس رضي اللہ تعالی عنہم قال: کان المال للولد ، فکانت الوصیۃ للوالدین ، فنسخ اللہ ذلک بأحب فجعل للذکر مثل حظ الأنثیین وجعل للأبوین لکل واحد منہما السدس ، وروی في السنن مسندا إلی أبي أمامۃ رضي اللہ تعالی عنہ قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : ’’ إن اللہ أعطی کل ذي حق حقہ فلا وصیۃ لوارث ‘‘۔ وأخرجہ الترمذي وابن ماجۃ ، وقال الترمذي : حسن ، وہذا الحدیث مشہور تلقتہ الأمۃ بالقبول ونسخ الکتاب جائز عندنا بمثلہ ۔ (شامي:۱۰/۳۳۶، ۳۳۷، کتاب الوصایا ، بیروت)قاعدہ(۱۵۷): {اَلزِّیَادَۃُ عَلَی النَّصِ فِي مَعْنَی النَّسْخِ} ترجمہ: نص پر زیادتی نسخ کے معنی میں ہے۔ (شرح السیر الکبیر:۲/۸۵، باب أہل الحصن یؤمنہ الرجل المسلم من المسلمین علی جعل أو غیر جعل ، قواعد الفقہ:ص۸۳، القاعدۃ:۱۴۳)مثال: وضو کے مطلق حکم پر، پے درپے،ترتیب اور نیت کی شرط لگانا، نص پر زیادتی ہے، جو نسخ کے معنی میں ہے اور نسخ اخبار آحاد سے جائز نہیں ہے۔قاعدہ(۱۵۸): {اَلسَّاقِطُ لا یَعُوْدُ} ترجمہ: شیٔ ساقط دوبارہ نہیں لوٹے گی۔ (درر الحکام:۱/۵۴، المادۃ:۵۱، قواعد الفقہ:ص۸۳، القاعدۃ:۱۴۴، ترتیب اللآلي:ص۷۴۱، القواعد الفقہیۃ:ص۳۷۳ ، شرح القواعد:ص۲۶۵، جمہرۃ القواعد:۲/۷۴۲، القاعدۃ:۹۶۰)مثال: قرض خواہ نے اپنے مقروض کو قرض سے بری کردیا اور اس نے اس ابراء کو قبول کرلیا،تواب دین مدیون کے ذمہ سے ساقط ہوگیا،اور وہ دوبارہ نہیں لوٹے گا، خواہ مقروض اس دین کا اقرار ہی کرے۔