الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۱۹۵): {اَلْعِبْرَۃُ لِعُمُوْمِ الَّلفْظِ لا لِخُصُوْصِ السَّبَبِ} ترجمہ: اعتبار عمومِ لفظ کا ہوتا ہے ، نہ کہ خصوصِ سبب کا ۔ (جمہرۃ:۲/۷۷۸، رقم:۱۱۶۴، القواعد الکلیۃ: ۲۹۲)مثال: حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس شخص نے اس چیز کی طرف سبقت کی جس کی طرف کسی مسلمان نے سبقت نہیں کی تو ہ چیز اسی کی ہے‘‘ ۔ (ابوداود ،رقم الحدیث: ۲۹۴۷) علامہ مناویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث افتادہ زمین کو قابل کاشت بنانے کے بارے میں آئی ہے، لیکن بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہر چشمہ، کنواں اور معادن کو شامل ہے، جس شخص نے ان میں سے کسی چیز کی طرف سبقت کی وہ اسی کاحق ہے، اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے ، سبب کے خاص ہونے کا اعتبار نہیں ہوتا ہے ، اسی پر حقوقِ مجردہ (تصنیف وتالیف)کو قیاس کیا گیا ہے۔ (فقہی مقالات: ۱/ ۲۲۵)قاعدہ(۱۹۶): {اَلْعِبْرَۃُ لِلْغَالِبِ الشَّائِعِ لا لِلنَّادِرِ} ترجمہ: غالب وعام کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ نادر و کم یاب کا۔ (درر الحکام :۱/۵۰ ، المادۃ :۴۱ ، قواعد الفقہ:ص۹۱، القاعدۃ:۱۸۴، القواعد الفقہیۃ :ص۱۳۰، ۲۲۷، شرح القواعد :ص۲۳۵، جمہرۃ القواعد : القاعدۃ :۸۴۱، القواعد الکلیۃ :ص۲۶۷، شرح السیر الکبیر:۴/۱۹۵، باب ما یحل للمسلمین أن یدخلوہ دار الحرب من التجارات)مثال: فرمان باری تعالیٰ :{وابتلوا الیتٰمیٰ حتی إذَا بلغوا النکاح فإن آنستم منہم رشداً فادفعوا إلیہم أموالہم}۔اور تم سدھاتے رہو یتیموں کو جب تک کہ وہ پہونچیں نکاح کی عمر کو، پھر اگر تم ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالہ کردو۔ (سورۃ النساء:۶) اللہ تبارک وتعالیٰ نے یتیموں کے والیوں اور کفیلوں کو حکم دیا کہ جب وہ سنِ رُشد (پندرہ سال کی عمر) کوپہنچ جائیں تو ان کے اموال ان کے حوالہ کردو، خواہ ان میں سمجھ داری کے آثار نمایاں ہوں یا نہ ہوں؛ کیوںکہ عموماًوغالباً اس عمر میں بچہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھنے لگتا ہے۔ ہاں! بعض بچے اس عمر کو پہونچنے کے باوجود بھی اپنے نفع و نقصان کو نہیں سمجھتے، لیکن یہ شاذ ونادر ہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتا ہے۔