الاصول و القواعد للفقہ الاسلامی ۔ فقہ اسلامی کے 413 اصول و قواعد |
قہ اسلا |
|
قاعدہ(۲۵۳): {کَلِمَۃُ کُلٍّ تُوْجِبُ الإحَاطَۃَ عَلٰی سَبِیْلِ الإنْفِرَادِ} ترجمہ: کلمہ’’ کلٌّ‘‘ بطور انفراد، احاطہ کو ثابت کرتا ہے۔ (شرح السیرالکبیر:۱/۲۳۳، باب ما یصدق المستأمن فیہ من أہل الحرب وما لا یصدق، ۱/۱۳۹، قواعد الفقہ:ص۱۰۳، القاعدۃ:۲۳۶)مثال: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد:{کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ}۔’’ہر روح موت کا مزہ چکھنے والی ہے‘‘۔ اور آقا کے قول:’’ کل مملوکٍ لي فہو حر‘‘۔(میرا ہر غلام آزاد ہے) ۔ میں کلمہ ’’کل‘‘ بطور انفراد احاطہ کے لیے ہونے کی بنا پر یہ ثابت ہورہا ہے کہ ہر روح موت کا مزہ چکھے گی، اور آقا کے تمام غلام آزاد ہوںگے۔قاعدہ(۲۵۴): {کُلُّ مَنْ فَعَلَ فِعْلاً وَتَمَکَّنَتِ التُّہْمَۃُ فِيْ فِعْلِہٖ : حُکِمَ بِفَسَادِ فِعْلِہٖ} ترجمہ: ہر ایسا شخص جس نے کسی فعل کو انجام دیا اور اس کے فعل میں تہمت پائی جائے ، تو اس کے اس فعل کے فاسد ہونے کا حکم دیا جائے گا۔ (جمہرۃ القواعد الفقہیۃ:۲/۸۶۹ ، رقم:۱۷۶۶، قواعد الفقہ:ص۳۱، المادۃ:۱۴)مثال: وکیل بالسلم نے ایسے شخص سے بیع سلم کیا ،جس کی گواہی اس کے حق میں قابلِ قبول نہیں ،مثلاً اپنے باپ یابیٹے وغیرہ سے بیع کی ، تو وہ اس بیع میں متہم ہوگا ، اور اس کی اس بیع کے فساد کا حکم دیا جائے گا۔ (قواعد الفقہ:ص۳۱)قاعدہ(۲۵۵): {کُلُّ مَنْ قُبِلَ قَوْلُہٗ فَعَلَیْہِ یَمِیْنٌ} ترجمہ: ہر وہ شخص جس کا قول مقبول ہو، اس پر قسم لازم ہے۔ ( قواعد الفقہ:ص۱۰۲، رقم القاعدۃ :۲۳۴)مثال: زیدنے کہاکہ عمرو کے ذمہ میرے ایک ہزار دراہم ہیں اور عمرو اس کا انکار کرتا ہے تو عمرو کا ہی قول قبول ہوگا، کیوںکہ عمرو موافق ظاہر کا دعوی کر رہاہے (ظاہر یہی ہے کہ عمرو کا ذمہ بَری ہے)، اور اصل و ظاہر کو باقی رکھنے کے لئے عمرو پر قسم لازم ہے۔